علی محمد فرشی

نظم نگار،نقاد،مدیر

اب تک علی محمد فرشی کے سات شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ان کی پہلی کتاب ’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘ ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئی تھی اور ساتویں ’’قید سے لبالب پنجرہ‘‘۲۰۱۶ء میں! بیس برسوں میں شائع ہونے والی ان ساتوں کتابوں میں ہمیں ان کی شخصیت کے بارے میں صفر معلومات حاصل ہوتی ہیں۔علی محمدفرشی کے خیال میں شاعر کی حقیقی شناخت اُس کی تخلیقات کے ذریعے ترتیب پاتی ہے!البتہ ان کے درجنوں انٹرویوز اور یونی ورسٹیوں میں اُن کی شاعری اور دیگرتخلیقی اور ادبی جہات کے حوالے سے لکھے جانےوالے تحقیقی مقالہ جات کے ذریعےاُن کی سوانح سے متعلق معلومات کا خاصا بڑا ذخیرہ دستیاب ہے۔ یہاں آپ کوعلی محمد فرشی کی شخصیت بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کا موقع میسر آئے گا۔

کتابیں

علی محمد فرشی کی ہر کتاب اپنی انفرادی شناخت اور ہر
نظم اپنی جداگانہ حیثیت کےباعث اپنا جواز فراہم کرتی ہیں۔

علی محمد فرشی ایک معروف مصنف ہیں، جنہوں نے نہایت خوبصورت اور فلسفیانہ فنی کتب تحریر کی ہیں۔ ان کی کتب میں آپ کو مصور اشکال اور فن کی دنیا میں دلچسپی کے موضوعات ملیں گے۔ ان کی تحریرات میں ہنر کی جدید روایت اور معاصر فن کی تجدیدیں دکھائی گئی ہیں۔ علی محمد فرشی کی کتب فن کے شوقینوں اور ماہرین کے لیے ایک اہم مرجع ہوتی ہیں۔ ان کی تحریرات میں فن کے اہم تصورات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

سمبل

ادبیاتِ اعلیٰ کا سمبل

علی محمد فرشی، جو فنی اظہار کی شعور سے مالا مال ہیں اور معاصر مسائل کو گہرائی سے سمجھتے ہیں، انکے سنگ نگینہ ادارے کو نئی تازگیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ میگزین کے اداریہ کے طور پر، فرشی کا اثر پوری پیشگوئی کے ذریعے محسوس ہوتا ہے، جو سوچنے کی طاقت کو ایک نئی سطح تک پہنچاتا ہے اور فنونی خوبصورتی کو نیا جوش دیتا ہے۔

اس کے علاوہ، میگزین کی ترتیب و تدبیر اور اداریہ کی بڑھئی ہوئی معیاری کی ایک مثالی نمائندگی فرشی کی دکھائی ہوتی ہے۔ چاہے معاصر فنی رجحانات کی تلاش کی جا رہی ہو، سماجی سیاسی مسائل کو سامنے لایا جا رہا ہو، یا نئے فنکاروں کو سراہا جا رہا ہو، ہر مضمون کو دلچسپی سے پیش کیا جاتا ہے۔ فرشی کی سربراہی کے تحت، ہر ایک شمارہ میگزین کا ایک تعمیر شدہ کام ہے جو پڑھنے والوں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔

ناصر عباس نیر کی نظر میں علی محمد فرشی کی نظم

زبان کا اصلی وظیفہ’ کہنا؍بتانا‘ ہے، ’دکھانا ‘نہیں۔جب کوئی شاعر کسی بات کو کہنے سے زیادہ اسے رونما ہوتے ہوئے ’دکھانے‘ کی سعی کرتا ہے تو زبان کی اصل کے خلاف چلتا ہے۔ زبان کی اصل کو وجود میں لانے اور اس کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری زبان کے رواجِ عام پر ہے۔ رواج ِ عام کے آگے کئی ’رجسٹر‘ ہیں جن میں ’کہنے؍بتانے ‘کے اصول ،طریقے ، رسمیات درج ہیں۔ جدید نظم ایک نیا ’رجسٹر‘ وجود میں لاتی ہے،جس میں رواجی زبان کی رسمیات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔جو لوگ نظم کے اس ’رجسٹر‘ کو بالاے طاق رکھتے ہیں، انھیں نظم بے معنی نظر آتی ہے۔ جس طرح آپ فلسفیانہ زبان کے رجسٹر سے مذہبی زبان کے رجسٹر کی تھاہ نہیں پا سکتے، اسی طرح عام علمی یا روزمرہ زبان کو حکم بناتے ہوئے جدید نظم کی صحیح تفہیم نہیں کر سکتے۔علی محمد فرشی کی نظم میں ’دکھانے‘کی مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ غالباً سب سے طاقت ور صورت تمثالیت ہے،جو ابتدا ہی سے ان کی نظموں میں چلی آتی ہے۔وہ زبان کی ’کہنے؍بتانے‘ کی اہلیت کو ’دکھانے‘ کی صلاحیت میں تبدیل کرتے ہیں؛معنی کو صورت دیتے ہیں؛سامع کو ناظر میں تبدیل کرتے ہیںاور متکلم کو مصور میں۔ مگر یہ سب کچھ اسی وسیلے کی مدد سے اور اس کے بنیادی نظام کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں،جس کے ناکافی ہونے کا انھیں بہ طور شاعر احساس ہے۔ وہ زبان کی قلبِ ماہیت زبان ہی کے ذریعے کرتے ہیں،مگر جن رسمیات کو کام میں لاتے ہیں،وہ وسیع مفہوم میں شاعرانہ اور مخصوص معنی میں جدید نظم کی رسمیات ہیں:یعنی مماثلت، قربت، تخالف، متوازیت ۔ انھی سے استعارہ، مجاز، تمثیل ،محال، ابہام اور تضاد پیدا ہوتے ہیں، جن سے طرح طرح کی تمثالیں وجود میں آتی ہیں۔کہنے کا مقصود یہ کہ فرشی صاحب کی نظم کی تمثالیں حقیقت نگاری پر مبنی مصوری کی مانند نہیں ہیں،بل کہ کہیں استعارہ ہیں،کہیں پیراڈاکس،کہیں علامت ہیں۔یہ پڑھے جانے سے زیادہ رمز کشائی چاہتی ہیں۔ان کے مفاہیم جس قدر سطح پر ہیں، ان سے زیادہ زیر سطح ہیں۔یہ جتنا کچھ دکھاتی ہیں، اس سے بڑھ کر چھپاتی ہیں۔کسی بھی متن کے زیرِ سطح مفاہیم دریافت طلب نہیں، تعبیر طلب ہوتے ہیں۔وہ قاری کو ایک صارف (کنزیومر) نہیں،شریکِ کار بناتے ہیں۔
فرشی صاحب کی نظم کہنے ؍بتانے کے ساتھ ساتھ ’دکھانے‘ کو اہمیت دیتی ہے۔اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنی نظم کو محض کسی خیال کی ترسیل تک محدود نہیں کرتے۔اگر آپ ان کی نظمیںفقط اس نیت سے پڑھیں کہ ان میں پیش کیے گئے خیال کا سرافی الفورآپ کے ہاتھ آجائے تو آپ کو مایوسی تو شاید نہ ہو،مگر دقت ضرور پیش آئے گی۔ یہ دقت نظم کی وجہ سے نہیں، آپ کی نیت کی وجہ سے ہوگی ۔قصہ یہ ہے کہ خیال کی ترسیل کے لیے ’کہنا ‘کافی ہے لیکن جب کسی ’موجود‘ کا اظہار مطلوب ہو تو ’دکھانے‘ کے سوا چارہ نہیں۔ ان کی نظم جس تجربے سے نمود کرتی ہے ، اس کے اجزا میں حسی، فکری، اساطیری ، داستانی، مذہبی ،تاریخی اور عصری عناصر شامل ہیں۔ فرشی صاحب تجربے کے رونما ہو چکنے کی بعد کی صورت حال ؍نتیجے کا اظہار نہیں کرتے، اسے رونما ہوتے دکھاتے بھی ہیں(اور یہیں سے کچھ ڈرامائی عناصر ان کی نظم میں پیدا ہوتے ہیں)۔اور یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس تجربے کو ’دکھانے‘ کا جو وسیلہ ہے ،وہ ناکافی ،محدوداور اپنی اصل میں سخت قدامت پسند ہے۔زبان سے بڑھ کرکوئی شے قدامت پسند نہیں؛اس امر کا جتنا احساس ،اور اس کی طرف سے مزاحمت کا جس قدر سامنا جدید نظم کو کرنا پڑا ہے، شاید ہی کسی دوسری صنف کو کرنا پڑا ہو۔ فرشی صاحب کی نظم زبان کے ناکافی ، محدود ،اور قدامت پسند ہونے کے خلاف شعوری جدوجہد نہیں کرتی(اگر ایسا کرتی توخاصی میکانکی ہو کر رہ جاتی )،تاہم زبان ہی میں کچھ ایسے رخنے، کچھ ایسی صورتیں ضرور دریافت کرتی ہے کہ واقعے،کیفیت اورعمل کو رونما ہوتے دکھا سکے۔ اس کے لیے ان کی نظم آرٹ کی کچھ دوسری صورتوں کی بعض تکنیکوں سے کام لیتی ہے۔ خاص طور پر موسیقی اور مصوری سے۔فرشی صاحب کی نظم میں ایک لفظ زائد نہیں! یہی نہیں،وہ اوقاف کی علامتوںاور کاغذ کی خالی جگہوں تک کو نظم کے لیے بروے کار لاتے ہیں۔

سمبل

  1. ادبی اور فنی مواد: “سمبل” کے تمام ایڈیشنز میں ادبی اور فنی مواد کی بڑی تنوع پائی جاتی ہے۔ یہاں پر مختلف مصنفین اور کالم نگاروں کی مضامین، شاعری، کہانیاں، اور مصور اشکال شامل ہوتے ہیں جو قارئین کے دلوں کو لبھاتے ہیں۔
  2. تازہ ترین تحقیقاتی مواد: “سمبل” کی ہر ایڈیشن اپنی تازگی اور تحقیقاتی مواد کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس میں نئی تحقیقاتی رپورٹس، تجزیاتی مضامین، اور فنی تجاویز شامل ہوتی ہیں جو قارئین کی دلچسپی کو بڑھاتے ہیں۔
  3. مختصر قصص اور ناول: “سمبل” میگزین میں مختصر قصص اور ناول بھی شامل ہوتے ہیں جو مختلف موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی اہمیت اور قصہ گوئی کی شہکاریاں قارئین کو بہت پسند آتی ہیں۔
  4. مصور اشکال اور فنی تصاویر: “سمبل” میگزین کی خصوصیت میں ایک اور نمایاں بات وہاں موجود مصور اشکال اور فنی تصاویر ہیں۔ ہر ایڈیشن میں دلکش اور موجودہ فنی اشکال کو دیکھا جا سکتا ہے جو قارئین کی نظریں کھینچتے ہیں۔
  5. تحریری اور شہرت یافتہ کالم نگار: “سمبل” میگزین کے تمام ایڈیشنز میں اہم تحریری شخصیات اور شہرت یافتہ کالم نگاروں کی مضامین شامل ہوتی ہیں۔ ان کے تجزیاتی مضامین اور تجرباتی تجاویز قارئین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
  6. تازہ ترین خبریں اور موجودہ معاملات: “سمبل” میگزین اپنے قارئین کو تازہ ترین خبروں اور موجودہ معاملات کے بارے میں بھی مہیا کرتا ہے۔ اس میں سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی موضوعات پر موجودہ تبادلے اور تجزیات شامل ہوتی ہیں۔
  7. فنی رپورٹرنگ: “سمبل” میگزین کی فنی رپورٹرنگ کی تعریف کی جاتی ہے جو موجودہ فنی تحریکات اور فعالیتوں کو پیش کرتی ہے۔ اس کی تصاویری رپورٹنگ اور تجزیاتی مضامین فن دانوں کے دلوں میں احساس زندگی پیدا کرتے ہیں۔
  8. تازہ ترین ٹاپکس اور موضوعات: “سمبل” میگزین کے ہر ایڈیشن میں نئے ٹاپکس اور دلچسپ موضوعات پر تجزیات اور مضامین شامل ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے قارئین کو فکری، فنی، اور ثقافتی روایتیں ملتی ہیں۔

کتابیں

علی محمد فرشی ایک معروف مصنف ہیں، جنہوں نے نہایت خوبصورت اور فلسفیانہ فنی کتب تحریر کی ہیں۔ ان کی کتب میں آپ کو مصور اشکال اور فن کی دنیا میں دلچسپی کے موضوعات ملیں گے۔ ان کی تحریرات میں ہنر کی جدید روایت اور معاصر فن کی تجدیدیں دکھائی گئی ہیں۔ علی محمد فرشی کی کتب فن کے شوقینوں اور ماہرین کے لیے ایک اہم مرجع ہوتی ہیں۔ ان کی تحریرات میں فن کے اہم تصورات اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

مقالہ

علی محمد فرشی کی مجموعہ کتب فن، فلسفہ، اور معاصر سوچ کے عالموں کی رومانیوں میں ایک دلچسپ سفر فراہم کرتی ہے۔ اس مجموعہ کی ہر کتاب فرشی کے انسانی اظہار کے گہرے فہم اور ان کی صلاحیت کا اظہار ہے کہ وہ پیچیدہ خیالات کو دستیاب فنی الفاظ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

فرشی کی کتابوں کی سب سے دلچسپ خصوصیت ہے ان کی انسانی حالت میں عمقی معرفت فراہم کرنا۔ ان کی فن، ادب، اور فلسفہ کی تحقیقات سے مواضعت پر غور کرتے ہوئے، فرشی قارئین کو خود کے وجود کی مقامت پر غور کرنے پر دعوت دیتے ہیں۔

فرشی کی تحریر کا انداز عفت اور سوچ کے حیرت انگیز نظم کی طرح ہے، جو قارئین کی خیالات کو محبت اور دانش کی دنیا میں مبتلا کرتا ہے۔ چاہے وہ تجرباتی تحقیقات کی بات کریں یا ذاتی زندگی کے حقائق پر غور کریں، فرشی کی کتب قارئین کی مغزی فعالیت اور خیالاتی فضا کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

علاوہ ازیں، فرشی کی کتب صرف فکری ممارسہ نہیں بلکہ خود مصنف کی رومانیاتی اظہاریں بھی ہیں۔ ان کی شاعرانہ فن کی اشاعت اور دلچسپ تصاویری دنیا قارئین کو آشچرک کرتی ہیں، جو ان کے خوابوں کو جلوہ دے کر، قارئین کو ایک مخصوص سفر پر لے جاتی ہیں۔

اختتام میں، علی محمد فرشی کی مجموعہ کتب فن، فلسفہ، اور ادب کی دنیا میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک لازمی پڑھنے کی شہکت ہیں۔ ان کی گہرائی سے بھرپور تجزیات اور دلچسپ تحریرات قارئین کو یقینی طور پر پیشگوئی کرتی ہیں کہ وہ اپنے زندگی کو بہتر بنانے کیلئے خوش اثر ہوں گے۔

ہمارے نیوز لیٹر کے ساتھ تازہ ترین رہیں

کاپی رائٹ © علی محمد فرشی