ڈاکٹر رشید امجد

علی محمد فرشی کا شمار ان چند اہم نظم نگاروںمیں ہوتا ہے جنھوں نے اردو نظم کو غیر غزلیہ آہنگ سے روشناس کرایا ہے اور یوں جدید اردو نظم کی اُس روایت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو اردو غزل کے آہنگی مزاج سے علاحدہ اپنی شناخت بنا چکی ہے۔ اپنے موضوعات، طریقہ کار، فنی استعداد کے حوالے سے وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ مختصر اور طویل نظم میں ان کا مکالماتی انداز، کردار نگاری اور فلسفیانہ رویہ جہاں شناسی کے ساتھ ساتھ آشوبِ ذات کی غواصی کا پتا دیتا ہے، وہیں سیاسی سماجی معاملات سے جڑے ہونے کا بھر پور احساس بھی دلاتا ہے۔
بنیادی طور پر وہ ایک امیجسٹ شاعر ہیں جو چھوٹے چھوٹے پیکروں سے ایک بڑی تصویر بناتا ہے۔ ان کا آغاز غزل ہی سے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ نظم کی طرف راغب ہو گئے۔ ان کی نظم نگاری کے پیچھے فنی ریاضت کی روایت مستحکم ہے۔ انھوں نے طویل اور مختصر دونوں طرح کی نظم لکھی ہے۔ بنیادی طور پر وہ نظم کی اس روایت سے منسلک ہیں جس میں مصرع کی طوالت، مصرع کہاں توڑنا ہے، نیا مصرع کہاں سے شروع کرنا ہے کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یوں ان کی نظم ایک مکمل معنوی اکائی کی حامل ہے۔ ان کی پیکر تراشی، پیکر سے علامت میں ڈھل جاتی ہے۔ مثلاً ’’ہوا مر گئی ہے‘‘، جیسا ٹکڑا منظر بنانے کے ساتھ ساتھ علامتی معنویت بھی رکھتا ہے۔ آزادی کا ختم ہو جانا ایک سیاسی علامت بھی ہے۔ فرشی کے پیکر فکری پہلو رکھتے ہیں۔ ان میں سماجی ، سیاسی، تاریخی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عصری سائنسی انکشافات کا عمل ان کی نظموں کو عصری شناخت کے ساتھ ساتھ جدید حسیت سے بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔
اس جدید حسیت کا احساس ان کی ہر سطر سے ہوتا ہے۔ نظم طویل ہو یا مختصر فرشی کی مصرع سازی ایک فنی رچاؤ اور تخلیقی دَبازَت کی حامل ہے۔ مصرع سازی کا یہ طریقہ کار جدید نظم کو پرانی نظم سے علاحدہ کرتا ہے۔ فرشی کی نظموں کا اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو مصرعوں کا ربط خاص طور پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ ان کا ہر مصرع ایک فنی طریقے سے دوسرے مصرع سے جڑا ہوا ہے اور پیکر مختلف مصرعوں کے تسلسل سے اس طرح وجود میں آتا ہے کہ تصویر مکمل ہوتی چلی جاتی ہے۔ امیجز کے ساتھ علامت بنانا یا علامت کو ایک صورت دینا ان کا وصفِ خاص ہے۔
وہ امیج کے ساتھ علامت کو جو صورت دیتے ہیں وہ اُن کے کمالِ فن کی دلیل ہے:
’’وہ رات کیسی تھی
جس نے اپنے تمام بچے نگل کے
سورج کا خون تھوکا
تو صبح گلیوں میں دن نہیں
دن کی لاش نکلی

ہوا کے ہاتھوں پہ پاؤں رکھ کر
جو آسمانوں کو چھیڑتا تھا
زمیں پہ خوشیاں بکھیرتا تھا
وہ آج اُس کے نحیف شانوں پہ
یوں پڑا تھا
کہ جیسے ماں کی جھکی کمر پر
جوان لختِ جگر کا لاشہ‘‘ (ایک دن کی لاش)
اس کمال میں علامتوں اور اور پیکروں کو اس طرح ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے کہ ایک کو دوسرے سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ امیجز کا یہ تسلسل ہے جو معنویت کی گرہیں کھولتا چلا جاتا ہے۔ اتنی بڑی تصویر بہت کم کہیں نظر آتی ہے۔فرشی کا اختصاص ہے کہ وہ ایک ہی ٹکڑےمیں امیجز کا ایک ایسا تسلسل قائم کرتے ہیں کہ ایک نئے معنوی جہان کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
’’کالے جوتوں کو چمکاتے چمکاتے
سرد سیاہی کی کیچڑ میں ننگے پاؤں چلتے چلتے
تم خوابوں کے روشن میدانوں تک جا پہنچے ہو
دھوپ کی گیند کے پیچھے بھاگ رہے ہو
خوشبو دار ہری چمکیلی گھاس پہ گر پڑتے ہو
نرم محبت تمھیں اٹھا کر اپنی گود میں بھر لیتی ہے
ست رنگی نیند پری کی لوری سنتے سنتے ہنستے ہو تو
نیلی چادر چاند ستاروں سے بھر جاتی ہے
آنسو سِکّوں کی مانند
میرے خالی پن کے اندر گرتے ہیں‘‘ (نیند پری کی موت)
ہر سطر میں ایک تصویر اور پھر تصویروں کا ایک تسلسل جو نظم کے مرکزی خیال کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان سات سطروں میں بہ ظاہر مختلف تصویریں ہیں لیکن مل کر کولاژ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ فرشی کے فن کا ایک انوکھا حسن ہے۔ ان کی ہر سطر اپنی جگہ نظم کی بنیاد رکھتی ہے اور اگلی سطر سے جڑ کر اس کی معنوی اکائی کو پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ نئی اردو نظم میں اس طرح کی پیکر تراشی بہت کم ہے اور پھر یہ کہ یہ محض اکہرے پیکر نہیں بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہو کر پوری نظم کی فکری اساس کو مستحکم کرتے چلے جاتے ہیں۔ فرشی کی نظموں میں فعال سماجی زندگی کے زاویےبہت نمایاں ہیں لیکن اس کے پہلو بہ پہلو ذات و صفات کے معاملات کا تنوع بھی موجود ہے۔ ہر دو مقام پر اخلاص کا رویہ اہم ہے کہ زندگی کے تمام معاملات و مراکز میں ان کی شمولیت خارج و باطن دونوں سطح پر موجود ہے۔ اس لیے اُن کے یہاں تصور کے ساتھ ساتھ زندگی کے عملی پہلوؤں کی پیکر تراشی بھی ہوتی ہے جس میں طبقاتی شعور بھی نمایاں ہے۔ وہ اپنے ہم عصر نظم نگاروںسے اس حوالے سے مختلف و منفرد بھی ہیں کہ وہ بالا دستوں کے لگائے زخموں کا اظہار صرف لب کشائی کی سطح تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اس اظہار میں دل کی دھڑکنوں کازیر وبم بھی سنائی دیتا ہے۔
کوئی بھی اہم فن کار اپنے عصر سے علاحدہ نہیں ہوتا۔ عصری مسائل کسی بھی نوعیت کے ہوں اپنے عہد کی فکری صورت حال سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال بہ یک وقت سائنسی، مابعد الطبیعیاتی اور کسی حد تک روحانی بھی ہوتی ہے۔ سچائی انھی کے درمیان کہیں موجود ہوتی ہے۔ اس تک پہنچنا ، اسے محسوس کرنا اور پھر اسے ایک فنی تجلی کی صورت دینا ہی بڑا آرٹ ہے۔ فرشی محض فنی ریاضت کے قائل نہیں بلکہ عملاً بھی سماجی شراکت داری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ان کا تصور سماج اپنے معاشرتی تاريخی تناظر سے جڑا ہوا ہے۔
’’سورج ہمارے گھروں پر سے
رستہ بدل کر گزرتا رہا ہے‘‘
یہاں پانچ عشروں کی ہر ڈائری سے
بس اتنی شہادت ملے گی
اگرچہ پلاننگ کمیشن کی میزوں پہ
رکھی ہوئی فائلوں میں
بدلتا رہا ہے زمانہ
زمانے کا سکہ
زمانے کے سقوں کی شاہی ‘‘
فرشی اس حوالے سے ایک کمٹڈنظریاتی شاعر ہیںلیکن پرانے ترقی پسندوںکی طرح ان کے لہجے میںنہ تو بلند آہنگی ہےاور نہ نظریے کا والہانہ پن، بلکہ وہ نہایت ملائم اور دھیمے انداز سے صورتِ حال کی نہ صرف عکاسی کرتے ہیںبلکہ ان کی تشویش بھی مؤثر طریقے سے نمایاں ہوتی ہے:
’’نئے سال کے جشن میں
ہم ،کھلونے بجاتے رہے تالیاں
اور گڑیا کی شادی رچانے کے
خوابوں میں سوتے رہے
بادشاہی مساجد کے مینار روتے رہے (نئے سال کی فائل)
آخری سطر میں پوری مسلم تاریخ کے المیے کو جس طرح سمو دیا گیا ہے اس پر صفحات کے صفحات لکھے جاسکتے ہیں۔
فرشی کا تصورِ سماج واضح اوراُن کے سماج سے گہرے جڑاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔انھوں نے آزاد نظم سے نثری نظم کی طرف جس سفر کا آغاز کیا تھا اب وہ عصری نظم کی پہچان بن رہا ہے۔
فرشی کی طویل نظم ’’علینہ‘‘میں اُن کے تصورِ عورت کے کئی چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ عورت کا وجود لڑکی سے دیوی اور پھر عظیم مادر کے روپ میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔نظم کا مرکزی کردار ایک عام عورت کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہےلیکن آہستہ آہستہ ایک ازلی و ابدی ہستی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ’’علینہ‘‘ایک عظیم ماں کا روپ دھار لیتی ہے جس کے وجود سے پوری کائنات جنم لیتی اورپھلتی پھولتی ہے۔مادرِ عظیم کا یہ تصور اساطیری بھی ہے جو خالق کو کبھی کبھی تخلیقی عمل کے حوالے سے تانیثیت کی طرف لے جاتا ہے۔اس تانیثیت میں جنم دینے کا درد انگیزعمل کرب و ایذا سے جڑا ہوا ہے۔’’علینہ‘‘ میں عورت کے جو مختلف روپ سامنے آئے ہیں ان میں عظیم ترین وجود جنم دینے والی ہستی کا ہے۔
’’علینہ‘‘ محبت کی متنوع جہات کا سمبل ہے جس نے اُن تمام داستانی کرداروں کی علامتوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے جنھوں نے محبت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔
’’علینہ !
میں خود ماروی کی کہانی میں
سَسّی کی نیندوں کے جنگل میں
جلتی جوانی میں
سوہنی کے جوشیلے پانی میں
گھلتی ہوئی کچی مٹی کے دکھ میں
وصالوں کے سکھ میں
کئی بار تجھ سے ملا ہوں
محبت کے باغات میں جب کھلا ہوں
تو خوشبو مری
آسمانوں سے تجھ کو بلاتی رہی ہے
تو اکثر نئے رنگ پہنے
زمینی سیاحت پہ آتی رہی ہے
مری چند روزہ کہانی علینہ !
زمانے کو، تجھ کو رُلاتی رہی ہے‘‘ (علینہ)
’’علینہ ‘‘یہاں ایک مہا سمبل میں ڈھل جاتی ہے جہاں سارے رشتےناتے، جذبے اور رویے یکجا ہو کر ایک عورت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ نظم اپنے ایک الگ تجزیے کی متقاضی ہے۔ یہاں اس نظم کے حوالے سےصرف فرشی کے تصورِ تانیث کو سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔عورت کے حوالے سے فرشی نے جو استعارے بنائے ہیں اور اپنی بلاغت کے باعث ان کے وسیع تصور تانیث کی وضاحت کرتے ہیں۔
’’عورت کیا ہے
کیکر پر انگور کا دکھ ہے
دکھ کا کیا ہے
اپنے دل پر سہ لینا ہے
سہنا کیا ہے
دوزخ جلتے رہنا ہے
دوزخ کیا ہے
جیون سارا دوزخ ہے
جیون کیا ہے
جس کو عورت جنتی ہے
جب وہ جنت بنتی ہے‘‘ (بھید میں چھپ کر بیٹھا بھید)
فرشی عورت کو ایک وسیع سماجی تناظر میں دیکھنے کی سعی کرتے ہیں۔اس نظم میں عورت ماں کی علامت میںآفاقی صداقت کی بلندی پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں عورت نہ صرف جنم دینے والی ایک عظیم ہستی ہے بلکہ ہمارے معاشرتی نظام میں دکھ سہنے والی ایک ایسی قوت جس نے سماجی مسائل کا تمام کرب اپنے شانوں پر ذمہ داری سے سنبھالاہوا ہے۔فرشی کی عورت گھر کی چاردیواری کے اندر بھی فاعل اور دیالو ہے اور کارپوریٹ کلچر میں ایک ذمہ درانہ شناخت کی علامت بھی۔
’’دفاتر کے دفتر میں وہ اک سٹینو گرافر تھی
سولہ برس سے بہت خوبصورت
کہ صاحب کی ساری عنایات
ظالم کی ایڑی کے نیچے سسکتی تھیں
لیکن کبھی اس نے کاپی کے پھولوں سے
باہر نکل کر نہ دیکھا
اُسے ساری دنیا کے غم نوٹ کرنے کی عادت تھی
مصروفیت میں وہ شام و سحر یوں الٹتی پلٹتی
کہ جیسے قیامت کے آڈٹ کا دن آگیا ہو
اُسے کچھ خبر ہی نہیں تھی کہ دفترمیں ،سڑکوں پہ،بس میں
اُسے پوجنے والی آنکھوں میں
حسرت کے سائے گھنے ہو رہے ہیں!
اُسے ایک دُھن تھی
خدائی کے غم مختصر کر کے
اک خط میں ڈالے
اُسے پوسٹ کر دے
کہ جس نے اُسے اِس مہارت کاانعام
محبت نویسی کے اول وثیقے میں لکھ کر روانہ کیا تھا‘‘ (ڈیڈ لیٹر)
یہ چند سطور دفتری زندگی میں عورت کی وہ تصویر بناتی ہیں جس کے جسمانی حسن کے قدموں میں سڑکوں پر پیدل چلتے، بس میں ساتھ سفر کرتےاور دفتر میں اس کے ساتھ کام کرنے والے مرد اپنی پلکیں بچھاکر اس کی اک نگاہِ دلبرانہ کی طلب میں گرفتار ہیں،حتیٰ کہ اُس کا باس بھی ہر نوع کی عنایات سے اُس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کےتمام گر آزماتا ہے لیکن وہ اپنے دفتری فرائض کی بجاآوری کے علاوہ جس جانب دیوانہ وار لپکتی ہے وہ اُس کا آدرش ہے۔اردو نظم میں عورت کی ایسی علامت اگر موجود ہے تو کم از کم میری نظر سے نہیں گزری۔یہ سٹینو گرافر عورت فرشی کے تصورِ تانیثیت کے تخلیقی پہلو کا استعارہ ہے۔جو مشکلاتِ معاش اور دردِ زہ کے ساتھ تخلیقی کرب سے بھی گزرنا جانتی ہے۔اس کی شخصیت کا تخلیقی پہلو بھی محض جمالیاتی تسکین سے مملو نہیں بلکہ ایک بڑے آدرش کے لیے تخلیقی جدوجہد سے عبارت ہے، جو فی نفسہٖ فرشی کی فنی کومٹ منٹ کا پرتو ہے۔
ہر بڑے شاعر کی طرح انھوں نے زمان و مکاں کے فلسفے پر بھی غور کیا ہے۔ ان کا تصورِ وقت اسلامی فکری تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔ازل سے ابد اور ابد سے ازل کا سفر بہ ظاہر بہت پھیلاؤ رکھتا ہے لیکن بنیادی طور پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ہی نقطے کے دو پہلو ہیں۔ یہاں فرشی وحدت الوجود سے متاثر نظر آتے ہیں۔وہ زندگی کو ازل اور ابد کے درمیان ایک وقفہ سمجھتے ہیںجو ہے بھی اور نہیں بھی۔ ان کا تصورِ وقت سائنسی نہیںبلکہ مابعد الطبیعیاتی ہےیوں وہ بعض مسلمان مفکرین کے قریب ہو جاتے ہیں۔
’’یہ سچ ہے ’’زمانہ خدا ہے‘‘
مگر وہ خدا ’’کن‘‘ کے نقطے سے
جس نے نکالاتھا ہم کو
زمانہ نہیں!
وہ خدا ،ماورا ہے زمانے سے
دریا سے، دریا میں بہتی ہوئی کشتیوں سے‘‘ (عنوان خور نظم)

خدا کا یہ تصور مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سائنسی قدر بھی رکھتا ہے۔ ’’عظیم دھماکا‘‘ میں مکاں وجود میں آیا تھا۔ یہ سوال اپنی جگہ رہا ہے کہ وقت کب اس کے ساتھ آکر جڑا۔ کیا وقت پہلے سے ہی موجود تھا، اگر تھاکس صورت میں۔ خدا وقت نہیں لیکن خدا کی صفات میں شمار ہوتا ہے۔ خدا تو مختلف صفتیں رکھنے والی ایک قوت ہےجس ہزار روپ ہزار رنگ ہیں۔فرشی کی طویل نظم ’’علینہ‘‘ میںوقت کے مختلف پہلوؤں کو فکری گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
’’علینہ!
تجلی بھری لاٹ کی
جھلملاتی تمازت میں
لپٹی ہوئی زندگی کی طرح
اپنے حجلے سے باہر قدم رکھ
زمانہ زمیں بوس ہو
اک جھلک دیکھنے کو تری
کائناتیں جھکیں
گردشیں آسمانی رکیں
وقت کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں
تیرے دیدار کی شربتی دھوپ میں
خاک پر
سر جھکائے کھڑی سرمدی بیل پر
دل کشا دل کشاپھول کھلنےلگیں
آدمی او رخدا عید ملنےلگیں‘‘ (علینہ)
تخلیقِ کائنات کا عمل اگر سات دنوں میں مکمل ہوا تواس کے بعد زمان و مکاں وجود میں آئے۔فرشی نے اس حوالے کوایک منفرد صورت میں دیکھا ہے۔
’’میں اک شاعرہ کے ستاروں میں سوتا رہا
سات دن، سات راتوں کے
چکر سے باہر
کہیں دو وور
صدیوںکی گنتی کی فرسودگی سے پرے
خواب گہ میں
زمانوں کا ریشم لپیٹے ہوئے
یونہی لیٹے ہوئے
بے خیالی میں ٹی وی کے ریموٹ کو چُھو لیا
اک دھماکا ہوا
زندگی کے پرخچے اُڑے
لوتھڑے آدمیت کے بکھرے پڑے تھے
قیامت کے میدان تک ‘‘ (خواب جلنے کی بو)

ایک ہی جست میں ازل سے ابد تک کا سفران کے تصورِ وقت کوایک طرف ماضی اور دوسری طرف مستقبل سے جوڑ دیتا ہے۔
علی محمد فرشی خواب دیکھنے والے شاعر ہیںاور ذاتی و معاشرتی خوابوں کوتعبیر دینے کے خواہاں ہیں۔یہ ان کی نظموں کا رجائی پہلو ہےاور یہ ان کی ذات، تخلیقی عمل اور معاشرتی کرب سے جڑا ہوا ہے۔ان کے کردار آئیڈیل اور زندگی کے عملی پہلوؤں کے امتزاج سے وجود میں آئے ہیں۔مکالمہ ان کی نظموں کا بنیادی وصف ہے۔ یہ مکالمہ ذات سے ذات اور خارج سے خارج تک دونوں سطحوں پر موجودہے۔ان کی باطنی ذات کبھی عورت اور کبھی مرد کی صورت اختیار کر کے زندگی کا استعارہ اور پھر عظیم تخلیق کار کی علامت میں ڈھلتی ہے توایک معنوی دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ ان کے ہاں سیاسی سماجی پس منظر صرف پس منظر رہتا ہے، نمایاں رجحانات ذات اور اس کے ارد گرد باطن کا سمندرایک ہیجان خیز کیفیت و تلاطم کو جنم دے کر اسے متھنےکا عمل شروع کرتا ہے۔ اس متھن کے نتیجے میںجو فکری بالیدگی جنم لیتی ہے وہ فرشی کی نظموں کی کلید ہے۔
ایک منفرد نظم نگار کی حیثیت سے علی محمد فرشی کی شناخت ہی ان کے بڑے شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ اچھے نقاد اور ’’سمبل‘‘ کےحوالے سے ایک منفرد مدیر کی حیثیت سےاُن کی شخصیت کی جن پرتوں کا اظہار ان کےہاں ہوا ہے انھوں نےان کے فکری نظام کی تعمیرمیں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
فرشی جہاںاپنے سماجی رویوں کے ترجمان ہیں،وہیں ان کی نظر اس عالمگیر مارکیٹ اکانومی اور صارفیت پر بھی ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، جہاں سماجی اقدار کی بے بسی اور اخلاقی گراوٹ ایک ایسے معاشرے کا جنم دے رہی ہےجہاں رشتے اور جذبے ناکام ہو چکے ہیں، جہاں خواب نہیں ڈالر بنیادی قدر ہے۔
’’بِک رہی تھی مشینوں پہ عورت کی خوشبو
جسے اپنی بغلوں میں چھڑکاؤ کرکے
انھیں نیند آتی تھی
’کھانے کے خوابوں‘ کی قلت تھی شاید
سبھی اک جھلک دیکھنے کے لیے
کیمرے آن کرکے کھڑے تھے
ہنسی اور کھلونے عجائب گھروں میں سجے تھے
فراکوں کے سارے نمونے بھی
ونڈو میں محفوظ تھے
اور بچوں کے ماڈل بھی
’یادوں کی دنیا‘ میں ایسے کھڑے تھے
کہ جیسے ابھی ہنس پڑیں گے ‘‘ (Cyberia)

لا تعلقی،بے گانگی اور ایک دوسرے سے قریب ہونے کے باوجود ایک دوری جس طرح جدید عہد کا مقدر بن چکے ہیں اس نے ساری اخلاقی اقدار کو خزاں زدہ کر دیا ہے۔
علی محمد فرشی فنی اور فکری دونوں حوالوں سے ایک توانا شاعر ہیں۔ان کے فکری دائرے اپنے عصری سماجی تناظرکو سمیٹتے ہوئے عالمگیریت تک پہنچتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ سائنسی انکشافات کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ان کا تصورِ زمان ومکاں تاریخ اور تہذیب سے جڑا ہوا ہےاس لیے ان کی نظموں کا فکری دائرہ بہت وسیع ہے۔ فرد اور اجتماع کا تعلق،رشتہ اور جدید عہد میں اس کے بگڑتے مسخ ہوتے نشانات ان کی علامتوں اور استعارے کا خمیر ہیں۔ فرد کی آشفتگی اور اپنے ہونے کی پہچان کے قضایا ان کے یہاں خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر موجود ہیں۔ ایک حوالے سے وہ وجودی افکار و کیفیات سے بھی ہمکنار ہوتے دریافت کے از سرِ نو عمل کی بات کرتے ہیں۔
فنی طور پر وہ امیجسٹ شاعر ہیںجو چھوٹے چھوٹے پیکروں سے ایک بڑا پیکر بناتا ہے،اس پیکر میں رنگ بھی ہے اور حرکت بھی۔
’’مشینہ!
زمانہ ہے، دیوانہ پا رقص کرتا
دھمکتا ،دھرپتا ہوا
تیرے چو گرد شہزادے
جوکر بنے،ناچتے ہیں‘‘ (مشینہ)

’’علینہ !
زمانہ ابھی تک
تری مرمریں برجیوں کے تلے
کاغذی پیرہن کو سنبھالے ہوئے
دست بستہ کھڑا منتظر ہے
ترے نقرئی اسم کا ورد کرتے ہوئے
کپکپاتے لبوں سے
کئی بار اس نے
مری یخ زدہ انگلیوں پر
وہی سرخ بوسے اتارے ہیں
میں جن کی حدت سے زندہ ہوں اب تک ‘‘ (علینہ)
فرشی کے پیکر محض تصویر تک محدود نہیں بلکہ ایک فکری سطح بھی رکھتے ہیں۔ یہ فکر حرکت کرتی اور کائنات کی وسعتوں کو چھوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تووہ اپنے ہم عصر نظم نگاروں میں ایک ایسی انفرادیت کے حامل ہیں جو اُن کی اپنی پہچان بناتی ہے۔ایک تخلیقی رچاؤ، غنائیت،روانی اور فکری دَبازَت اُن کی اِس پہچان کے بنیادی عناصر ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــحوالہ : ڈاکٹررشید امجد،’ علی محمد فرشی کے نظم کدے کی کلید‘: ’ آثار ‘لاہور، شمارہ ۹،اکتوبر ۲۰۲۱ ،ص۶۱ تا۷۰