نظم کےمعنی،نظم سے باہر بھی ہیں‘‘علی محمد فرشی کی نظم’’
ڈاکٹر ناصرعباس نیر
معاصر اردو نظم کیا ہے؟ یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے ۔معاصر نظم اپنی موجود گی کا احساس جس شدت سے دلاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ شدت سے اس کی پہچان کا سوال سامنے آتا ہے۔اردو کی شاید ہی کسی دوسری صنف کو اس نوع کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔معاصر نظم کا سارا دبدھا، سارے تناقضات، سارا ابہام،اس کے ردّو قبول کی ساری متھ ،اسی صورتِ حال میں مضمر ہے۔ ممکن ہے معاصر نظم (اور یہاں آ پ جدید نظم کو بھی شامل سمجھیے، جس کی توسیع معاصر نظم ہے)اپنے حقیقی قارئین کاایک بڑا اور مؤثر حلقہ پیدا کرنے میں ناکام ہوئی ہو،مگر وہ اپنی موجودگی کو باور کرانے میں جس طور کام یاب ہوئی ہے، اس کی کوئی دوسری مثال کسی اور شعری صنف میں نہیں ملتی۔ غزل میں بھی نہیں۔ نظم کی موجودگی کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ محض رسائل کے صفحات، کمپیوٹر سکرین اور کتابوں میں بالعموم نظر آتی ہے۔یہ تو اس نظم کے وجود کی شہادتیں ہیں۔ کسی شے کا وجود ،اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ’موجودگی‘ کا حامل بھی ہے۔ایک لاش ،مردہ لفظوں کا کوئی منظوم پیکر بھی وجود رکھتے ہیں،مگر وہ ’موجود‘ نہیں ہیں؛وہ دکھائی دیتے ہیں، مگر ہم تک احساس و معنی کی ترسیل نہیں کرتے۔وہ اپنے وجود کی واضح،غیر مشتبہ حد میں مقید و مقفل ہیں۔ معنی کا کوئی نور، احساس کی کوئی مہک ان سے ظہور نہیں کرتی۔ان میں سے کوئی بات معاصر نظم کے سلسلے میں وہ شخص بھی نہیں کہے گا، جس کا دل تغزل کے عشق میں جدید نظم سے کھٹا ہو چکا ہو،یاجسے نظم کی علامت و ابہام پسندی کے ہزار شکوے ہوں۔ موجودگی ،وجود کی مادی حدوں کو لخت لخت کرکے پھیل جانے اور جہاں جہاں رسائی ہو،وہاں وہاں حقیقی وجود کے طور پر اثرا نداز ہونے کا نام ہے۔نظم کی موجودگی بھی کسی ایک نظم یا کسی ایک شاعر کی نظموں کی اس حد کے باہر وجود رکھتی ہے ،جسے ہم کاغذ یا سکرین پر دیکھتے ہیں۔اسے آپ معاصر؍جدید نظم کی شعریات، آرٹ کا بھی نام دے سکتے ہیں،جو حقیقتاً کسی انفرادی نظم سے ’باہر‘ موجود ہے،مگر جب تک کوئی شاعر اس کی آگ کو اپنی نظم میں انڈیلتا نہیں، وہ جدید نظم نہیں لکھتا، بے معنی مصرعے موزوں کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ،ناکام نظموں کا بھی ایک کردار ہوتا ہے ؛ان کے تقابل سے نہ صرف کام یاب نظمیں اجاگر ہوتی ہیں،بل کہ ان راستوں کی بھی نشان دہی کرتی ہیں،جن سے اچھے نظم گو کو بچ کے چلنا چاہیے ۔کوئی بڑا فن پارہ کئی ناکام کوششوں کے نتیجے ہی میں ظہور پذیر ہوتا ہے ،اور یہ ناکام کوششیں ایک شخص کی نہیں، ادبا کے ایک گروہ،یا پوری ایک نسل کی ہو سکتی ہیں۔
بہ ہر کیف جدید نظم کی شعریات؍آرٹ کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کی گواہی ہمیں کسی نقاد سے لینے کی ضرورت نہیں(اس لیے نہیں کہ نقاد کی گواہی معتبر نہیں،بل کہ اس لیے کہ یہاں اس کی ضرورت نہیں)،اس کا ثبوت نظم کے وہ شعرا ہیں،جنھوں نے نظم کے آرٹ کے کو ہ سیناسے اخذِ نور کرنے میں اپنی بہترین تخلیقی قوتیں صرف کر دیں۔ معاصر نظم کی جس موجودگی کا ہم ذکر کر رہے ہیں، وہ اس ہالے میں جھلملا رہی ہے جو میراجی، راشد، مجید امجد، اختر الایمان، منیر نیازی، وزیر آغا،جیلانی کامران،ضیا جالندھری،عزیز حامد مدنی،ساقی فاروقی، آفتاب اقبال شمیم، فہمیدہ ریاض، علی محمد فرشی، افضال احمد سید، ثروت حسین، نصیر احمد ناصر،ابراراحمد، ستیہ پال آنند، جاوید انور،وحید احمد،انوار فطرت،رفیق سندیلوی ،یامین، فرخ یار،پروین طاہر کی مساعی سے ’موجود‘ ہے۔ (واضح رہے کہ یہ سب ایک مرتبے کے شاعر نہیں،نہ ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے چند دہائیوں بعد لوگوں کو کئی ناموں کو شاملِ فہرست کیے جانے پر باقاعدہ حیرت ہو،خاص طور پر معاصر شعرا میں بالآ خر دو تین نام ہی دائمی اہمیت حاصل کر پائیں گے۔تاریخ اپنے فیصلے سخت سنگدلی سے مگربے تعصب ہو کرکرتی ہے! )۔جس ہالے نے ان سب شعرا کی نظموں کو اپنے محیط میں لے رکھا ہے، وہ ہما شما کو اپنی موجودگی باور کراتا ہے؛اور ٹھیک اسی طرح باور کراتا ہے، جس طرح کوئی بھی ’موجودگی‘ ،یعنی اس کی تحسین کی جاتی ،اس کا احترام کیا جاتا، اس کے وجود کی عظمت کا احساس کیا جاتا ہے؛اور اسے’ غیرموجودگی‘میں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔بایں ہمہ اس کی پہچان معاصر شعری تنقید کا اہم مسئلہ ہے۔دوسرے لفظوں میں جدید نظم کاآرٹ جس قدر تحسین حاصل کرنے میں کام یاب ہوا، اس قدر تفہیم نہیں۔ جدید نظم کی مخالفت کا سارا ڈسکورس اس کے عسیر الفہم ہونے کے مفروضے پر استوار ہے۔
علی محمد فرشی کی نظموں کے مجموعے’ غاشیہ(ان کی دیگر کتابوںمیں’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘،’دکھ لال پرندہ ہے‘،’زندگی خود کشی کا مقدمہ نہیں‘،’علینہ‘ اور ’محبت سے خالی دنوں میں‘شامل ہیں‘)سے متعلق یہ تمہید بر سبیلِ تذکرہ نہیں،اس صورتِ حال کو واضح کرنے کی کوشش ہے،جس کا سامنافرشی صاحب کی نظموں کو ’پڑھنے‘ کی کوشش کے دوران میں ہوتا ہے۔راقم کو جدید نظم کے لیے ’پڑھنے‘ کا فعل غیر مناسب تو نہیں، البتہ ناکافی ضرور لگتا ہے۔جدید نظم کی ساری مشکل پسندی بڑی حد تک اس لیے ہے کہ لوگ اسے ’پڑھنے ‘ تک محدود رہتے ہیں؛اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جدید نظم فقط ’پڑھنے‘ کی چیز ہے۔ اس بات پر شاید ہی غور کیا گیا ہو کہ آرٹ فقط ’پڑھنے ‘کی چیز نہیں؛تمام غیرے فن تحریریں پڑھنے کے لیے ہیں؛آرٹ ’پڑھنے‘ کے علاوہ بھی ہے۔پڑھنا ،فقط ایک قسم کی ذہنی صلاحیت ،فوری یادداشت کو بہ رُوے کار لاتا ہے ؛ہم کسی متن کو پڑھتے ہوئے جو کچھ اخذ کرتے ہیں،اس کا مفہوم فی الفور ہماری یادداشت کی مدد سے طے ہوتا ہے ،یا پڑھتے ہوئے اگر کچھ نیا سیکھتے ہیں تو اسے بھی یادداشت میں محفوظ کرتے ہیں؛پڑھنا اصل میں سیکھنا ہے ،یا سیکھے ہوئے کا احیا ہے ۔دوسری طرف آرٹ سے ہم کنار ہونے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ ذہنی صلاحیتیں درکار ہیں۔غور کیجیے؛ کیا اپنی اصل میں مصوری ،موسیقی، رقص، داستان،مجسمے ’پڑھنے‘ کا آرٹ ہیں؟اگر آپ انھیں فقط ’پڑھیں‘ تو کیا ان کا بصری وسمعی جمال آپ پر منکشف ہو سکے گا؟ تسلیم کہ آرٹ کے ان تمام نمونوں میں اپنے ’پڑھے جانے‘ کے خلاف مزاحمت موجود نہیں،مگر اس کا تقاضا بھی موجود نہیں۔ ہم اپنے فہم کی توسیع کی خاطر ،یا ان کے جمال کے سرچشموں اور جمال کے اثرات کو سمجھنے کے لیے انھیں پڑھ سکتے ہیں،مگر وہ ہماری قرأت کے بغیر اپنے آپ میں مکمل ہیں ،اور ہم پر اپنی روح ِ جمال کو منکشف کرنے کے لیے ہماری سعیِ قرأت کے محتاج نہیں۔جدید نظم بھی آرٹ ہے؛ایک مکمل آرٹ۔اسے محض ’پڑھنے‘ کی کوشش کی گئی؛اس سے ہم کنار ہوکر،اس کی رمز کشائی کی سعی بس خال خال ہوئی ۔راقم جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہے، اس کی وضاحت میں فرشی صاحب کی نظموں سے یہ ٹکڑے دیکھیے:
’’سوال نامے ہزار ہا دائرے بناتے
مجھی کو مجھ سے ملانے آتے ہیں
پاس آتے ہیں ٹ و ٹ جاتے ہیں‘‘
’’ریگِ رواں پر
ری ں گ ت ے ،ری ں گ ت ے،
عمریں ب ی ت ی ں‘‘
’’بے کراں وسعت سے باہر
گِر
پڑا
تھا
وہ
ذرا سی زندگی میں‘‘
’’میں نے دیکھی نہیں
خواب بنتی ہوئی سندسی انگلیاں
(جن کا لمسِ گداز ایک دن
وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا
میرے ہونٹوں پہ آیا؍تو صدیوں کی نمکینیاں
سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں
ابھرے پہاڑوں کا ایک سلسلہ بن چکی تھیں )‘‘
’غاشیہ‘ میں شامل مختلف نظموں کے یہ اقتباسات ہمیں علی محمد فرشی کی نظم کے آرٹ کی بعض بنیادی رمزوں سے آشنا کرتے ہیں،بشر طے کہ ہم محض انھیں پڑھ کر ان کے مفہوم تک پہنچنے کی عجلت سے باز آسکیں۔فرشی صاحب کی نظم کہنے ؍بتانے کے ساتھ ساتھ ’دکھانے‘ کو اہمیت دیتی ہے۔اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنی نظم کو محض کسی خیال کی ترسیل تک محدود نہیں کرتے۔اگر آپ ان کی نظمیں فقط اس نیت سے پڑھیں کہ ان میں پیش کیے گئے خیال کا سرافی الفورآپ کے ہاتھ آجائے تو آپ کو مایوسی تو شاید نہ ہو،مگر دقت ضرور پیش آئے گی۔ یہ دقت نظم کی وجہ سے نہیں، آپ کی نیت کی وجہ سے ہوگی ۔قصہ یہ ہے کہ خیال کی ترسیل کے لیے ’کہنا ‘کافی ہے لیکن جب کسی ’موجود‘ کا اظہار مطلوب ہو تو ’دکھانے‘ کے سوا چارہ نہیں۔ ان کی نظم جس تجربے سے نمود کرتی ہے ، اس کے اجزا میں حسی، فکری، اساطیری ، داستانی، مذہبی ،تاریخی اور عصری عناصر شامل ہیں۔ فرشی صاحب تجربے کے رونما ہو چکنے کی بعد کی صورت ِ حال ؍نتیجے کا اظہار نہیں کرتے، اسے رونما ہوتے دکھاتے بھی ہیں(اور یہیں سے کچھ ڈرامائی عناصر ان کی نظم میں پیدا ہوتے ہیں)۔اور یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس تجربے کو ’دکھانے‘ کا جو وسیلہ ہے ،وہ ناکافی ،محدوداور اپنی اصل میں سخت قدامت پسند ہے۔زبان سے بڑھ کرکوئی شے قدامت پسند نہیں؛اس امر کا جتنا احساس ،اور اس کی طرف سے مزاحمت کا جس قدر سامنا جدید نظم کو کرنا پڑا ہے، شاید ہی کسی دوسری صنف کو کرنا پڑا ہو۔ فرشی صاحب کی نظم زبان کے ناکافی ، محدود ،اور قدامت پسند ہونے کے خلاف شعوری جدوجہد نہیں کرتی(اگر ایسا کرتی توخاصی میکانکی ہو کر رہ جاتی )،تاہم زبان ہی میں کچھ ایسے رخنے، کچھ ایسی صورتیں ضرور دریافت کرتی ہے کہ واقعے،کیفیت اورعمل کو رونما ہوتے دکھا سکے۔ اس کے لیے ان کی نظم آرٹ کی کچھ دوسری صورتوں کی بعض تکنیکوں سے کام لیتی ہے۔ خاص طور پر موسیقی اور مصوری سے۔ مثلاً مندرجہ بالا پہلے اور دوسرے اقتباس میں موسیقی سے مدد لی گئی ہے۔ جس طرح موسیقی میں کسی احساس کے ابلاغ کے لیے اونچا سر لگا یا جاتا ہے، فرشی صاحب نے دائرے کے ٹوٹنے، ریگ رواں پر رینگنے اور عمر وں کے بیتنے کو ’دکھانے‘ کے لیے انھیں توڑ کے لکھا ہے۔عمر کا بیتنا، ایک عام خیال ہے،مگر ’عمریں ب ی ت ی ں‘کو جب آپ رک رک کر،آہستہ سہج انداز میں ادا کرتے ہیں تو عمریں کس طرح رفتہ رفتہ، شکستہ،ٹوٹی پھوٹی حالت میں ،کج مج انداز میں گزریں، اس کا نقشہ چشمِ تخیل میں پھر جاتا ہے۔تیسرے اقتباس میں بچے کی پیدائش کا منظر دکھایا گیا ہے۔یہاں مصوری کے آرٹ کو زبان پر آزمایا گیا ہے۔ ’بے کراں وسعت سے باہر گر پڑا تھا وہ ذرا سی زندگی میں‘کو جس طرح لکھا گیا ہے،گِر ،پڑا، تھا،وہ کو خاصی سپیس دے کر الگ الگ ،اور گِر کو ترچھے انداز میں لکھ کر وہ ڈرامائی منظر دکھایا گیا ہے،جوبچے کی پیدائش کو ہبوطِ آدم کی تمثیل سے جا ملاتا ہے، اور اس تاثر کو بیدار کرتا ہے کہ عدن کی وسعت بے کراں سے زوالِ آدم کا قصہ ہر روز،ہر لمحے دہرایا جارہا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ اگر ان نظموں کو فقط پڑھا جائے ،اور ان کے بنیادی پیغام کو اسی طرح حاصل کرنے کی کوشش کی جائے،جس طرح کسی لفافے میں بند پیغام کے سلسلے میں کی جاتی ہے؛لفافہ پھاڑ کر پھینک دیا جاتا اور پیغام پڑھ کر اندر کا کاغذ بھی ردی میں ڈال دیا جاتا ہے،توکیا نظم سے انصاف ہوسکے گا ؟یعنی نظم کی تکنیک کو لفافہ سمجھ کر اس سے صرفِ نظر کر لیا جائے ، اور اس کے معنی کو سمجھنے کے بعد فراموش کر دیا جائے کہ وہ معنی ’کیسے،کس رنگ میں،کس آواز، کس بھائو میں‘ آپ تک پہنچا،تواسے نظم کا ’پڑھنا ‘ تو کَہ سکتے ہیں، اس کے اسرارسے ہم کنار ہونا،اور اس اسرار کے اندر سفر کرنا نہیں۔یہ تو بالکل ایسے ہے کہ ایک بے صبرا عاشق چھوٹتے ہی محبوب کا بندِ قبا چاک کر ڈالے ؛اس کے وجود کے نو بہ نو جلووں ،خدوخال کے نور، قوسوں،لکیروں کے اسرار سے ’ہم کنار‘ ہوئے بغیریہ جا وہ جا۔ جدید نظم کی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے بے صبرے (عاشق نہیں)قارئین ملے ۔خیر! غنا، مصوری اور ڈرامے کی عمومی تکنیک سے فرشی صاحب کی نظم ایک حد تک مدد لیتی ہے، اور نسبتاً منفرد انداز میں۔مثلاً ان کی نظم ’کنکریٹ پوئٹری‘ سے واضح علاقہ نہیں رکھتی۔کنکریٹ پوئٹری میں نظم کو اس انداز میں لکھا جاتا ہے کہ اس سے ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے؛لفظ ، مصرعے لکیروں کا کام دیتے ہیں۔لفظ اور مصرعے کے ذریعے کسی شے ،وقوعے ،عمل ، کیفیت کو ’دکھانے ‘ کا تصور کنکریٹ پوئٹری سے لیا ہوا لگتا ہے ،مگر کیسے دکھایا جائے ، یہ اختراع فرشی صاحب کی اپنی ہے ۔ اسی طرح ان کی نظم محض غنائی اصوات پر بھی منحصر نہیں،جیساکہ مختار صدیقی نے اپنی بعض نظموں میں صوتی تاثر کو ’دکھانے‘ کے لیے مخصوص آوازوں کی تکرار سے کام لیا تھا ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ علی محمد فرشی کی نظم میں دوسروں اور خود کو دہرانے کے سلسلے میں احتیاط ملتی ہے۔دوسری وجہ تجربے کی پہلو داری ہے۔
یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت ضروری ہے۔زبان کا اصلی وظیفہ’ کہنا؍بتانا‘ ہے، ’دکھانا ‘نہیں۔جب کوئی شاعر کسی بات کو کہنے سے زیادہ اسے رونما ہوتے ہوئے ’دکھانے‘ کی سعی کرتا ہے تو زبان کی اصل کے خلاف چلتا ہے۔زبان کی اصل کو وجود میں لانے اور اس کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری زبان کے رواجِ عام پر ہے۔ رواج ِ عام کے آگے کئی ’رجسٹر‘ ہیں جن میں ’کہنے؍بتانے ‘کے اصول ،طریقے ،رسمیات درج ہیں۔ جدید نظم ایک نیا ’رجسٹر‘ وجود میں لاتی ہے،جس میں رواجی زبان کی رسمیات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔جو لوگ نظم کے اس ’رجسٹر‘ کو بالاے طاق رکھتے ہیں،انھیں نظم بے معنی نظر آتی ہے۔ جس طرح آپ فلسفیانہ زبان کے رجسٹر سے مذہبی زبان کے رجسٹر کی تھاہ نہیں پا سکتے، اسی طرح عام علمی یا روزمرہ زبان کو حکم بناتے ہوئے جدید نظم کی صحیح تفہیم نہیں کر سکتے۔علی محمد فرشی کی نظم میں ’دکھانے‘کی مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ غالباً سب سے طاقت ور صورت تمثالیت ہے،جو ابتدا ہی سے ان کی نظموں میں چلی آتی ہے۔وہ زبان کی ’کہنے؍بتانے‘ کی اہلیت کو ’دکھانے‘ کی صلاحیت میں تبدیل کرتے ہیں؛معنی کو صورت دیتے ہیں؛سامع کو ناظر میں تبدیل کرتے ہیں اور متکلم کو مصور میں۔ مگر یہ سب کچھ اسی وسیلے کی مدد سے اور اس کے بنیادی نظام کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں،جس کے ناکافی ہونے کا انھیں بہ طور شاعر احساس ہے۔ وہ زبان کی قلبِ ماہیت زبان ہی کے ذریعے کرتے ہیں،مگر جن رسمیات کو کام میں لاتے ہیں،وہ وسیع مفہوم میں شاعرانہ اور مخصوص معنی میں جدید نظم کی رسمیات ہیں:یعنی مماثلت، قربت، تخالف، متوازیت ۔ انھی سے استعارہ، مجاز، تمثیل ،محال، ابہام اور تضاد پیدا ہوتے ہیں،جن سے طرح طرح کی تمثالیں وجود میں آتی ہیں۔کہنے کا مقصود یہ کہ فرشی صاحب کی نظم کی تمثالیں حقیقت نگاری پر مبنی مصوری کی مانند نہیں ہیں،بل کہ کہیں استعارہ ہیں،کہیں پیراڈاکس،کہیں علامت ہیں۔یہ پڑھے جانے سے زیادہ رمز کشائی چاہتی ہیں۔ان کے مفاہیم جس قدر سطح پر ہیں، ان سے زیادہ زیر سطح ہیں۔یہ جتنا کچھ دکھاتی ہیں، اس سے بڑھ کر چھپاتی ہیں۔کسی بھی متن کے زیرِ سطح مفاہیم دریافت طلب نہیں، تعبیر طلب ہوتے ہیں۔وہ قاری کو ایک صارف (کنزیومر) نہیں،شریکِ کار بناتے ہیں۔نظم ’ایک دن کی لاش ‘ سے یہ ٹکڑا دیکھیے:
’’وہ رات کیسی تھی
جس نے اپنے تمام بچے نگل کے
سورج کا خون تھوکا
تو صبح گلیوں میں دن نہیں
دن کی لاش نکلی‘‘
یہ لائنیں’ بھنبھوڑنے والی ماں‘( Devouring Mother) کی تمثال سامنے لاتی ہیں۔(آگے چل کر ہم بحث کریں گے کہ فرشی صاحب کی نظم میں مادرِعظمیٰ کا آرکی ٹائپ مرکزی اہمیت رکھتا ہے)۔ہندو صنمیات میں اسے کالی ماتا کانام ملا ہے۔ ’وہ رات‘ کالی کا استعارہ ہے۔ اس تمثال میں جو کچھ ’دکھایا‘ گیا ہے، اس سے زیادہ چھپایا گیا ہے۔کالی ،بچوں ،مردوں ،سورمائوں کی غارت گر ہے۔جنھیں جنم دیتی ہے،انھی کو بھنبھوڑ ڈالتی اور نگل جاتی ہے۔تخلیق کی بہ جاے تخریب، زندگی کی بہ جاے موت ، امید کی بہ جاے خوف کی علامت بنتی ہے۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ ’وہ رات ساتویں ماہ کے پانچویں دن کی تھی‘ ، پانچ جولائی،ہماری تاریخ کی سیاہ رات۔ جس کے بعد شہر پتھر کا ہوگیا اور آدمی مٹی کا ڈھیر؛دونوں نمو اورتخلیق کی قوتوں سے محروم ہوگئے ۔ان قوتوں سے محرومی کا نتیجہ بنجر پن کے ساتھ ساتھ بربریت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ شاعر نے جو استعارہ وضع کیا ہے ،وہ تاریخ اور اساطیر کی مماثلت پر استوار ہے۔زمانی واقعیت اورلازمانی علامت میں مماثلت دیکھ کر ایک تمثال بنائی ہے،جو گہری رمزوں کی حامل ہے۔ان رمزوں کو فرشی صاحب کی نظم ’دکھاتی‘ ہے، مگر ان کی تعبیر کی ذمہ داری، ایک ذمہ دار قاری پر ہی عائد ہوتی ہے۔
یہیں فرشی صاحب کی نظم کے آرٹ کی ایک ایسی خصوصیت سامنے آتی ہے،جس کی حیثیت نہ صرف ان کی شاعری میں بل کہ جدید نظم کی شعریات میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔رابرٹ فراسٹ نے ایک جگہ جدید نظم کی بابت لکھا ہے: ’کہنا ایک بات،مراد دوسری بات لینا‘۔فراسٹ نے Sayingاور Meaningکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یعنی نظم جو کچھ کہتی ہے، اس کے معانی عام مروجہ زبان کے ذریعے طے نہیں ہوتے، نظم کی شعریات؍موجودگی؍آرٹ یا اس کے لسانی رجسٹر سے متعین ہوتے ہیں۔گویا نظم(کے معانی ) کا سلسلہ ،نظم کے ’باہر ‘تک پھیلا ہوتا ہے۔ جن کے یہاں اس ’باہر‘ کا تصور نہیں ہوتا ،یا ہوتا ہے تو ناقص ہوتا ہے ،انھی کو نظم بے معنی نظر آتی ہے ۔وہ نظم کی تفہیم مروجہ زبان کی مدد سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اور نظم جو کچھ کہتی ہے ،اس سے ’کچھ دوسرا‘مراد نہیں لیتے ، اس لیے ٹھوکر کھاتے ہیں۔مگر اصل سوال یہ ہے کہ نظم کیسے ’باہر‘ تک پھیلی ہوتی ہے ؟جیسا کہ پہلے بیان ہوا،نظم زبان کے خلاف جتنے قدم اٹھاتی ہے،وہ زبان کے ذریعے ،اور اسی کے اندر اٹھاتی ہے۔( یہ قول ِ محال ہے)۔نظم اپنے محدود متن سے باہر قدم اٹھانے کے لیے بھی زبان ہی کی سیڑھی استعمال کرتی ہے۔مگر یہ عام سیڑھی نہیں، اس میں کئی قدم ہوتے ہی نہیں،متعدد ’خلا، خالی جگہیں‘ ہوتی ہیں۔ لفظوں کے مابین مماثلتوں، قربتوں ،تخالف وغیرہم نیم واضح ہوتے ہیں۔نظم میں استعارے اور تمثالیں واضح ،مگر یہ جن مماثلتوں اور قربتوں کی بنیاد پر وضع ہوتے ہیں ،وہ نیم واضح ہوتے ہیں۔ یہی وہ نیم واضح منطقے ہیں،جو نظم سے ’باہر‘ ہیں۔ فرشی صاحب کی نظم کی جس خصوصیت کا ابھی ذکر ہواہے ،وہ یہی نیم واضح منطقے ہیں۔ اس امر کی وضاحت کے لیے نظم ’غاشیہ‘ کا تمہیدی حصہ دیکھیے۔ یہاں واضح اور نیم واضح منطقے کو ساتھ ساتھ لکھا جارہا ہے:
میں کشمکش کے کنارے بیٹھا ہوں۔۔۔
[کشمکش ایک ندی کی طرح ہے،دو کناروں میں مقید، مسلسل بہتی ہوئی۔کشمکش ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی]
کنکری ایک پھینکتا ہوں
[آہستہ روپانی میں کنکری پھینکنا، اس کی روانی میں مخل ہوناہے؛اس کی سطح میں تبدیلی لانا ہے؛مسلسل ،یکساں بہاؤ سے پیدا ہونے
والی تکرار میں رخنہ ڈالنا، اپنی موجودگی باور کراناہے؛اور ایک سیال شے میں ٹھوس شے سے ارتعاش پیدا کرنا ہے ]
سوال نامے ہزار دائرے بناتے
[کنکری ایک سوال کی طرح ہے،جس سے کشمکش کی ندی میں دائرے بنتے ہیں؛کشمکش کا ایک سمت سے دوسری سمت کی
طرف جاری رہنامتاثر ہوتا ہے؛دائرے کی صورت کچھ واضح ہیئت نظر آنے لگتی ہے]
پاس آتے ہیں، ٹ و ٹ جاتے ہیں
[مگر یہ ہیئت عارضی ہے۔ایک ٹھوس حقیقت ،سیال کیفیت میں عارضی تبدیلی لاتی ہے۔کشمکش جاری رہتی ہے]
اس کنارے سے اس کنارے کے درمیاں
میں اکیلا خود سے بچھڑتا رہتا ہوں
[کشمکش کی ندی،کنکری، سوال نامے ،دائرے ،یہ سب ’میں‘ ہی ہوں۔خود سے ملتا اور خود سے بچھڑتا رہتا ہوں]
آسماں کو زمیں کے دل سے ملانے والا!
[کیا دبدھا، کیا المیہ، کیا عجب صورت ہے کہ جس نے آسماں کو زمیں سے ،ذہن کو دل سے، آدم کو حوا سے، نور کو مٹی سے،عرفان
کو حسی تجربے سے،بلندی کو پستی سے ، تقسیم کو وحدت سے ملایا، وہ خودکو اپنے آپ سے نہ ملا سکا! آدمی کی خود سے جدائی ازل ابد
کے درمیان کھنچی ہوئی ہے۔]
نظم میں نیم واضح منطقوں کا ہونا،ایک حقیقت ہے،مگر اس کی تعبیر مختلف ہو سکتی ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ ان منطقوں کے خاکے سے کوئی مختلف تصویر بنائیں۔چوں کہ یہ منطقے نظم سے ’باہر‘ ہیں، اس لیے نظم ان کے خاص طرح سے تعبیر کیے جانے پر کلی اختیار نہیں رکھتی،نہ اس اختیار کی جویا رہتی ہے۔نظم صرف اشارے کرتی ہے ۔وہ اپنے مزاج میں اس آمریت کو پیدا نہیں ہونے دیتی ،جس میں جو کچھ کہا جاتاہے، وہی کچھ مراد بھی لیا جاتا ہے؛اس آمریت میںدوسرے کومعنی یابی کے عمل میں شریک کرنے کی بہ جاے،اس پرخاص معنی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جدید نظم کی جمالیات میں اس جمہوری اور ایک خاص معنی میں سیاسی جہت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔جدید نظم اپنے قاری کے لیے گنجائش پید اکرتی ہے کہ وہ سامنے کی دنیا کی تعبیر اور ایک نئی دنیا کی تعمیر میں اس کے ہم رکاب ہو۔
نظم ’غاشیہ‘(نظم کا عنوان غاشیہ،قرآن کریم کی ۸۸ویں سورہ الغاشیہ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ڈھانپ لینے والی (قیامت) کا ہے۔)اس سے آگے چلتی ہے ،اور اسی طرح تمثالوں، علامتوں کے سہارے۔ زیادہ تر تمثال سازی کا عمل اس طور انجام پاتا ہے کہ لفظوں کی رعایتیں،مناسبتیں ،نسبتیں تمثال کو مکمل کرتی ہیں۔ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے زبان نے شاعر کے تخلیقی عمل پر قدرت حاصل کر لی ہے ،اور شاعر کے عندیے پر زبان کا نحوی رخ حاوی ہو گیا ہے ۔ بادی النظر میں تو یہ شاعر کے منشا کی زبان کے ہاتھوں شکست ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ عام اظہار سے لے کر تخلیقی اظہار تک ،نہ صرف ہمارا منشا زبان کے اندر تشکیل پاتا ہے ،بل کہ ’ہمارے اظہار‘ پر زبان کا فرق و مماثلت پر مبنی نظام حاوی ہوتا چلا جاتا ہے ۔اس بات کا تجربہ ہر لکھنے والے کو ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے ذہن میں ایک مبہم خاکہ ہوتا ہے ،پھر ایک ’موزوں لفظ‘ ہمیں سوجھتا ہے ،آگے کا سارا سفر لاشعوری طور پر اسی سمت میں ہوتا ہے جہاں ہمیں وہ ’موزوں لفظ‘،اپنی مناسبتیں،تلازمات ،افتراقات تلاش کرتے ہوئے لے جاتا ہے۔ ہماری کلاسیکی اور جدید شاعری میں زبان کے اس کردار کا شعور موجود ہے،بعض امتیازات کے ساتھ۔جدید نظم اپنے لسانی وجود کے سلسلے میں خاصی آگاہ اور حساس ہے۔تمثال سازی سے لے کر ،نئے اور منفرداسلوب کی تلاش اسی ضمن میں ہے۔بہ ہر کیف یہ تمثالیں بھی کہتی کچھ، مراد کچھ اور لیتی ہیں۔ایک بصری ،متحرک منظرہمارے حواس کو جگاتا ہے ،جو تکرار کی وجہ سے کند ہوچکے ہوتے ہیں،اور پھر اس منظرکے قرب وجوارمیںنئے معانی طلوع ہوتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً یہ ٹکڑا دیکھیے:
’’سوال خود اک سحر کی صورت گلی میں آتا
تو سب دریچے اسی کی آہٹ پہ کان رکھتے
دلوں کے باغوں میں سوئی سانسیں
تمام سینوں میں جاگ اٹھتیں
نکل کے بستر سے دن مچلتا کہ آئو جھولے دھنک کے ڈالیں
تو سب کے چہرے چہکنے لگتے۔۔۔۔‘‘
طلوعِ سحر سوال کا استعارہ ہے، اور کیا خوب استعارہ ہے ۔روایتی طور پر سوال کا استعارہ ملگجی شام ہے کہ دونوں میں ابہام قدر مشترک ہے۔طلوعِ سحر کو تو سوال کا جواب سمجھا گیا ہے،مگر یہاںسوال کا ظہور ،صبح کے طلوع کے مماثل قرار دیا جارہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شاعر جس سوال کی بات کر رہا ہے ،وہ عام قسم کا پہیلی نما سوال نہیں۔اصل یہ ہے کہ طلوعِ سحر اپنے تمام معانی سمیت ،اس متن سے ’باہر‘ ہے،مگر یہ ٹکڑا کیا مراد لیتا ہے،یہ سب اسی ’باہر‘ میں مضمر ہے۔ نئی صبح آتی ہے تو ہر شے ایک ’نئی زندگی‘ پاتی ہے،نیند ، غفلت سے نجات پاتی ہے۔(نظم کا عنوان غاشیہ بھی غفلت کا مفہوم لیے ہوئے ہے) ٹھہری ہوئی زندگی آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھاتی ہے،نئے عزم، نئے ولولے اور نئی مسرتوں کے ساتھ۔گویا یہ ایک ایسا سوال ہے جو زندگی سے نہیں، نئی زندگی سے متعلق ہے؛زندگی میں موجود کسی الجھن سے متعلق نہیں، ایک نئے کشف،تازہ عرفان کی بابت ہے۔لہٰذا اس سوال کے بغیر زندگی میں نئی صبح،تازہ کھلی کھلی ،نرم ،روشنی نہیں آتی۔پوری نظم کے تناظر میں سوال زندگی کی بنیادی حقیقت کے اس عرفان سے متعلق ہے ،جسے صرف چند لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔وگرنہ تو معیشہ (معیشت)کے اٹھے لہنگے سے جھانکتی رانوں کی لذت میں اسیر لوگ حیات کی تمام عشرت گنوا بیٹھتے ہیں۔جو چند لوگ سوال،اور ان کا بار اٹھاتے ہیں،ا ن میں ایک کردار حاتم طائی کا بھی ہے، جو اس نظم کے متن میں زیر ِ سطور موجود ہے۔معیشت اور دوسری لذتوں کی ہزار چشمی بلاؤں کا خاتمہ یہی حاتم طائی کرتا ہے۔مگر اب (حاتم طائی کی) کہانی باقی نہیں رہی، اس لیے اب لوگ ایک ایسی کھائی میں ہیں جہاں پرانی داستانوں کی نہ تو ہزار چشمی بلائیں ہیں،نہ کو ئی موذی ہزار پایہ ہے:
’’سواے ایک بے وجود سایہ
عجیب دنیا بنا رہا ہے
نہ میں ہوں جس میں
نہ تم ہو اِس میں‘‘
سوال باقی تھے تو ہر شے واضح تھی۔شہزادی ہو، ہزار چشمی بلا ہو یا کوئی ہزارپایہ موذی ہو۔ان کو پہچاننا اور ان کا قلع قمع کرناآسان تھا،مگر اب صرف سایوں کی دنیا ہے۔’بے وجود سایہ‘ جدید ادب کی مرکزی علامت رہا ہے ۔جدید عالمی اور اردو ادب میں انسان کی شناخت یا تو سائے کے طور پر کی گئی ہے ،یا کسی حقیر جانور ،معمولی کیڑے ،مکروہ حشرات کی صورت ۔دونوں صورتوں میں انسان اپنے اس شرف سے محروم ہے ،جس کا تصورقرونِ وسطیٰ اور کلاسیکی عہد میں کیا گیا۔ (یہاں اقبال استثنیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے قرونِ وسطیٰ کی عظمتِ آدم کا بیانیہ لکھا،اور اسی بناپر یہ بحث آج بھی کی جاتی ہے کہ اقبال کے یہاں جدید حسیت کا اظہا ر ہو ایا نہیں)۔جدیدیت میں سایہ ،جدید انسان کی شناخت کے اس عظیم بحران کی نمائندگی کرتا تھاجو عظیم جنگوں، آمریتوں، کبیری بیانیوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا ۔مگر آج سائے کی معنویت بدل گئی ہے ۔ مابعد جدید دنیا میںاشیا نہیں، ان کے امیج اہم ہیں؛آدمی نہیں، اس سے متعلق کوئی بیانیہ یا ڈسکورس اہم ہے۔شخصیت نہیں، اس کی شناخت اہم ہے جسے اس پر مسلط کر دیاگیا ہے۔میں اور تم ،جو حقیقی دنیا کی شناخت کو ممکن بناتے ہیں،جو سوال اٹھاتے، اور ان کے جواب رکھتے ہیں، ان سایوں ، امیجز، بیانیوں، تاریکیوں میں کھو گئے ہیں۔
اس نظم کے سلسلے میں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ ہزار چشمی بلاؤں کی جگہ بے وجود سائے نے لے لی ہے،اور یہ (ہماری)کہانی کا اہم موڑ ہے۔یہاں واضح اشارہ ایک روایت کے خاتمے کی طرف ہے۔یہ روایت علامتوں سے معمور تھی۔اس میں سوال،سوال کرنے والا، سوالوں کے جواب کی تلاش میں جنگلوں میں مارا مارا پھرنے والا، طرح طرح کی بلائوں سے دوچار ہونے والے اور ان پر غالب آنے والاکردار،سب علامتیں تھیں،جن کے معانی اجتماعی ثقافتی شعور میں جگمگاتے تھے۔واضح رہے کہ یہ علامتیں دنیا و کائنات کے معنی تلاش کرنے کا تخیلی وسیلہ تھیں۔ان کے معانی اجتماعی ثقافتی ذہن میں روشن کیا ہوتے تھے کہ ایک ’بامعنی دنیا‘ کا نقشہ ابھر آتا تھا،جس میںلوگ اپنا مرتبہ،کردار،اپنے وجود کے معانی پالیتے تھے۔گویا جس میں، مَیں اور تم معنی سازی کے عمل میں شریک رہتے تھے،مگر اس روایت کی جگہ جس بے وجود سائے کی دنیا نے لی ہے،اس میں مَیں اور تم ہی نہیں ہیں۔ہر چند سایہ بھی علامت ہے،مگر شناخت کے تاریک ، بے نشان ہونے کی ؛مَیں اور تم کے غائب ہونے کی؛ایک بے معنویت کی علامت،جس میں روشنی کی کوئی کرن اگر ہے تو بس یہ کہ اس بے معنویت،بے وجود سائے کی آگہی نظم کے متکلم کو حاصل ہے،اور اس آگہی کو اپنی تقدیر سمجھ کر خاموش ہوجانے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت۔ فرشی صاحب کی نظم محض ہماری ثقافتی روایت کی کہانی کے ایک موڑ کا قصہ ہی نہیں لکھتی ،خود اپنے لیے ایک ’موتف‘بھی ایجاد کرتی ہے۔انفصال کا موتف۔خود سے، تُوسے ،ماضی سے انفصال۔واضح رہے کہ انفصال موتف ہے ،موضوع نہیں۔ لہٰذا ان کی نظم میں فصل،ہجر،جدائی،مفارقت، مہاجرت بنیادی موضوع کم بنتے ،نظم کی مجموعی ہیئت میں زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ نظم ’غاشیہ ‘ میں ہم خود سے انفصال کی کچھ صورتیں دیکھ چکے ہیں۔ ’بہتی ریت میں‘ میں ریگ رواں کی تمثال فصل کی علامت بنی ہے۔’ستر ماؤں کا پیار‘ کی سطر سطر میں تُو سے فصل کا دکھ سرایت کیے ہوئے ہے۔نظم’نیند میں چلتی موت‘ تُو کی مناجات پر مشتمل ہے۔مَیںکی تُو سے مناجات اس جدائی کے پس منظر میں ہے جسے دنیا میں دھنستے چلے جانے کا احساس مزید گہرا کرتا جاتاہے۔انفصال کا یہی موتف ایک دوسرے رنگ میں ’ٹوٹم ٹ و ٹ گیا‘ میں موجود ہے۔ ’حقیقت‘، ’اجل جل میں کنول‘،’دوسرا کون ہے‘ ،’ہم زاد‘،’داؤ‘میں بھی آپ کو فصل وجدائی کارفرما نظر آئے گی۔خود سے، تُو سے اور تاریخ و روایت سے فصل ان نظموں میں شدت سے ظاہر ہے۔لہٰذا ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ میں جس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں،وہ انفصال بہ طور موتف ہے۔موتف اصلاً کہانی کی اصطلاح ہے ۔چوں کہ فرشی صاحب کی اکثر نظمیں نہ صرف بیانیہ اسلوب اختیار کرتی ہیں ،جگہ جگہ داستانی ،اساطیری بیانیوں کے کرداروں،واقعات ، تھیم سے دل چسپی ظاہر کرتی ہیں،بل کہ کہانی کے پیٹرن کو بھی اختیار کرتی ہیں؛ا س لیے موتف کی اصطلاح بے محل نہیں۔موتف سے مراد ایک ایسا اصل الاصول ہے جو کبھی مخفی،کبھی نیم عریاں،کبھی ایک لفظ، کبھی ایک سطر؍مصرع،کبھی بین السطور،کبھی وراے سطور ظاہر ہوتا ہے،مگر کہانی کے مرکزی مفاہیم کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔اس کی معنویت،اس کے واضح ،راست ،بیش از بیش اظہار سے نہیں، اس کے علامتی،بالواسطہ اظہار سے ہوتی ہے۔
فرشی صاحب کی نظم میں مادر ِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں بھنبھوڑنے والی ماں کی تمثال کا ذکر آچکا ہے۔مادر ِ عظمیٰ بہ یک وقت پیدا اور برباد کرنے والی قوت کی علامت ہے ۔یہ آرکی ٹائپ اس اہم ترین حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ تخلیق کا معنی تخریب ہی کے مقابل قائم ہوتا ہے ،اور کوئی خالق اس وقت تک اپنا اثبات نہیں کر سکتا ،جب تک وہ اسی درجے کی شکست و ریخت اور بربادی کی صلاحیت کا مظاہرہ نہ کرے ،جس درجے کی وہ تخلیق کی صلاحیت رکھتا ہے ۔تاہم پیشِ نظر رہے کہ یہ دیوتائی اور شیطانی صفات کا اجتماع ِ ضدین نہیں؛تخلیق کی قوت کے مظاہرے کی دو متضاد صورتیں ہیں۔مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ کئی صورتوں میں فرشی صاحب کی نظموں میں ظاہر ہوا ہے ۔مثلاً پہلی صورت اس ہزار شیوہ جمال کی ہے جو کہیں واضح اور کہیں تلازمات کی سطح پر نسوانی ہے۔بدن ،خوش بو، لمس، آبنوسی پھول،ریشم بھرے خواب جیسے الفاظ اور ان کے تلازمات سے حسن کی نسائی تمثال سامنے آتی ہے۔پھر نظم کے لفظوں، مصرعوں اور بندوں میں ایک ایسا تناسب قائم کرنا کہ کوئی ایک لفظ زائد نہ ہو،اور اس سے حسن کا تاثر پیدا کرنا۔ آپ کَہ سکتے ہیں کہ اگر مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ نہ بھی ہوتا تو ان کی نظم کو ایک جمال پارہ بننے کے لیے اپنی ہیئت میں توازن و تناسب سے کام لینا پڑتا،درست۔مگر یہ دیکھیے کہ نظم کے پیٹرن کا جمال کیا فطرت کی اس عظیم الشان تخلیقی قوت سے کوئی نسبت رکھتا ہے یا نہیں ،جس کی ایک نمائندہ مادر عظمیٰ ہے؟
فرشی صاحب کی نظم میں مادرِ عظمیٰ کے آرکی ٹائپ کے اظہار کی اگلی صورت زیادہ واضح ہے۔ جن نظموں میں ،مَیں اور تُو کے فصل سے پیدا ہونے والے دکھ کو پیش کیا گیا ہے،ان میں بھی تُوکے خدوخال مادرِعظمیٰ سے یا تو مماثل ہیں،یا اس سے لیے گئے ہیں،یا اس کی یاد کی موجودگی میں ظاہر ہوئے ہیں۔ایک نظم کا تو عنوان ہی ’ستر مائوں کا پیار ‘ ہے۔خدا کی محبت ،ستر ماؤں کے پیار سے بڑھ کر ہے۔ اس قول کی تہ میں مادرِ عظمیٰ ہی کا آرکی ٹائپ موجود ہے۔مادری تہذیبوں کی اساطیر میں حقیقت ِ عظمیٰ کی شناخت نسائی پیکر کے طور پر کی گئی۔مذکورہ نظم کی یہ لائنیںماںہی کی تمثال لیے ہوئے ہیں:
’’ کہاں ہے؟
تُوخود اپنی شیریں صدا سے
مری تیرہ بختی میں
شبھ رات کی مصریاں گھول دے
ماں تو ناراض ہے
اب کئی روز سے بولتی بھی نہیں‘ ‘
اسی طرح جن نظموں میں برصغیر کی مشترکہ ثقافت کے استعمار کے ہاتھوں غارت ہونے کا موضوع نظم ہوا ہے،(جیسے ’زمانہ ہمیں دیکھ کر ہنس رہا تھا‘)، ان میں مشترکہ ثقافت ،ماں ہی کا ایک روپ ہے ، اور اس سے جدائی کا وہی کرب ،وہی خسارہ ہے جو ماں سے بچھڑنے پر بچوں کو سہنا پڑتا ہے۔
مادر عظمیٰ کا آرکی ٹائپ صرف ان شعرا کے یہاں ظاہر ہوتا ہے ،جن کے یہاں مَیں اور تُو، آدم وحوا، زمیں و آسمان ،عصر اور روایت کے انفصال نے ایک بنیادی نفسیاتی صداقت کا درجہ اختیار کر لیا ہو۔ اس کی شخصی جڑیں خود اپنی ماں اور مٹی سے دائمی جدائی کے گہرے جذباتی تجربے سے عدم مصالحت میں ہو سکتی ہیں۔مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ طرح طرح سے ،بھیس بدل کر ، کچھ دوسری علامتوں کے ذریعے یعنی اپنی Displacement کر کے بھی ظاہر ہوتا ہے۔اس کی سب سے اہم مثال علی محمد فرشی کی طویل نظم ’علینہ‘ ہے،جسے جدید اردو نظم میں ایک لافانی نظم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔’ علینہ‘اپنے خدو خال کے اعتبار سے مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ ہے علینہ اپنے پیکر ، خدوخال اور کردار کے اعتبار سے کائنات کی عظیم قوت ِ تخلیق کی علامت ہے ۔پوری نظم ’علینہ‘ ، مادر عظمیٰ ، کائنات کی مقدس قوت ِ تخلیق سے انفصال کا قصہ بیان کرتی ہے ۔نظم کا متکلم علینہ سے اس انداز میں مخاطب ہوتا ہے جیسے اس کی روح جدائی کی زخموں سے چور ہے۔اس کے لہجے میں پکار، دعا اور مناجات ہے ۔ نیز’ علینہ ‘کے نام ہی میں انفصال کی ایک کیفیت ہے جسے شاعر نے نمایاں کیا ہے:علینہ=علی نہ۔یہاں اس نظم پر تفصیل سے لکھنے کی گنجائش نہیں۔ صرف ایک حصہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ،یہ واضح کرنے کے لیے کہ کس طرح مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ، انفصال سے معنوی ربط رکھتا ہے۔
’’علینہ!
غار سے نکلیں
کوئی رستہ بنائیں
اس گھنی ،گاڑھی، سیاہی سے نکلنے کا
اندھیرے ،اندھے،زہریلے دھوئیں میں
کاربن ہوتی ہوئی عمریں کہاں ہیرا بنائیں گی
کسی نیکلس،انگوٹھی اور جھمکے میں
چمک اٹھنا کہاں دل کا مقدر ہے
ہمارے کوئلہ ہوتے دنوں کا غم
ہمالہ نے کہاں رونا ہے
کس تاریخ کا چہرہ بھگونا ہے‘‘
یہ کون سا غار ہے جس سے نظم کا متکلم نکلنے کے لیے علینہ سے مخاطب ہے؟ اصل یہ ہے جب انفصال ،شکستگی، دوئی ذات کو بری طرح کھدیڑنے لگتی ہے تو آدمی لنگر کی تلاش میں اپنے ہی اندر مارا مارا پھرتا ہے تو لاشعور ی طور پراس کا سامنامادرِ عظمیٰ کے آرکی ٹائپ سے ہوتا ہے۔یہ ساری تلاش دوئی کو اکائی میں بدلنے کی خاطر ہوتی ہے۔دوئی کا اوّلین تجربہ آدمی ،بہ قول ژاک لاکاں ’مراۃ کی منزل‘میں کرتا ہے،جب بچہ اپنا عکس آئینے،یا آئینہ نما شے میں دیکھتا ہے۔زبان اور کلچر کے دیگر مظاہر میں آدمی کی شرکت سے دوئی کا گھائو بڑھتا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ،اظہار کے نئے نئے وسائل پر دسترس حاصل کرتے جاتے ہیں، دوئی کا زخم مزید گہرا اور چوڑا ہوتا جاتا ہے۔آدمی کی تنہائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ،اور اسی نسبت سے اس زمانے کا تخیل شوخ ہوتا جاتا ہے جب آدمی وحدت کی گود میں تھا؛تنہائی اور دوئی دونوں کے ڈنک سے محفوظ تھا۔ایسے میں وحدت کی اوّلین حالت کی طرف مراجعت، آدمی کا سب سے بڑا خواب بن جاتی ہے،اور یہ خواب ہی مادرِ عظمیٰ کے آرکی ٹائپ کو بیدار کرتا اور اسی خواب میں مادر ِ عظمیٰ بیدار ہوتی ہے۔مادرِ عظمیٰ کی طرف مراجعت کے سفر میں کئی منزلیں، علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ان میں ایک اہم علامت غار ہے۔
مادرِ عظمیٰ کی طرح غار کی علامت بھی متضاد خصوصیات کی حامل ہے۔ ایک طرف یہ تاریکی، خوف،موت ،گھٹن کی علامت ہے تو دوسری طرف روشنی،رجا،زندگی ،آزادی کی ؛ماں کی کوکھ کی ایک بے خطا تمثیل۔ غار کے اندرگھنی گاڑھی سیاہی ،مگر اس کے کنارے پر روشنی ہے،بس اس کا راستہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔’علینہ‘سے یہی راستہ دریافت کرنے کی آرزو کی گئی ہے،کہ مادر ِ عظمیٰ ہی اس راستے سے آگاہ ہو سکتی ہے۔’ غاشیہ ‘میں شامل نظم ’کھائی‘ میں بھی غار کی علامت ظاہر ہوئی ہے۔مگریہاں غار ماں کی کوکھ ،اساطیری مذہبی مقدس مقام کی علامت ہے ،جس سے جدائی دائمی ہے۔ اس ’غار‘ کے آگے فقط کھائی ہے۔یہاں شاعر نے انسانی صورت ِ حال کے ایک عجب دبدھے کو پیش کیا ہے ۔آدمی غار سے نکل کر روشنی کے کنارے پہنچنا چاہتا ہے ،مگر یہ کنارہ ایک کھائی کا ہوتا ہے۔کھائی نشیب ،گہرائو،خوف ، شر،موت کی علامت ہے،نیز یہ وہی کھائی ہے جس میں بے وجود سایوں کا راج ہے۔یہ نظم آدمی کے سفر کی رائیگانی کو پیش کرتی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ نظم اس سلسلے میں خاموش نہیں ہے کہ آخر غار کے آگے کھائی کیوں ہے،یاتاریکی کے بعد فراز، روشنی کیوں نہیں؟نظم کا آغاز ان مصرعوں سے ہوتاہے:
’’ہم جس خواب کی انگلی تھامے
غار سے نکلے
اس کو سارے رستوں سے آگاہی تھی‘‘
یہی خواب(جو وحدت کی حالت حاصل کرنے کا خواب ہے) انھیں کھائی تک لے جانے کا ذمہ دار ہے۔نظم میں غار سے نکل کر خوش خوش سفر کرتے چلے جانے ،اور پھر تھک جانے کے بعد متکلم پوچھتا ہے ’’غار آخر کب آئے گا؟‘‘اور اسے جواب ملتا ہے کہ آگے کوئی غار نہیں ہے۔ جس کاایک مطلب یہ ہے کہ وہ غار سے نکلے ہی نہیں،دوسرا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک غار سے نکل کر دوسرے غار میں جانا چاہتے ہیں۔ اگر یہاں دوسرے غار کا ذکر ہے تو یہ کون سا غار ہے؟نیز ایک غار سے نکل کر دوسرے غار میں پہنچنے کا مفہوم کیا ہے ؟اگر ہم پہلے غار کو ماں کی کوکھ تصور کریں ،اور دوسرے غار کو تفکر و مراقبے کا مقدس مقام خیال کریں ،تو بھی ان دونوں سے جدائی دائمی ہے،خواہ اس کا ذمہ دار کوئی خواب دکھانے والا ہو، یا خواب دیکھنے والا۔یہی انسانی وجود کی تقدیر ہے!آدمی جب تک ماں کی کوکھ میں،غار میں تھا، اکائی تھا؛اس کے بعد ساری عمر اس اکائی ، اس جنت گم گشتہ کی تلاش کا سفر ہے،اور اکثر رائیگانی کا سفر ۔
اسی طرح نظم ’دہانہ ‘ میں ایک بار پھر غار ظاہر ہوتا ہے، ’دور اندر کہیں غار ہے ؍جس میں بیٹھا ہوا دیو کھاتا ہے ؍کیڑوں کی محنت ‘۔ اس غار میں کیڑے ،انسان کئی عمروں کی خوراک گرائیں تب بھی اس کا دہانہ نہیں بھرتا۔یہاں غاراس قدیم ترین تاریک مسکن کی علامت ہے جب انسان آگ سے متعارف نہیں ہوا تھا،غار کے استبداد سے آزاد ہونے کی صورت سے واقف نہیں ہواتھا۔یعنی پرومیتھیس کے آگ چرانے کی کہانی کی ماقبل صورتِ حال۔تاہم غار ہی کے ضمن میں اس نظم کا ایک ذیلی متن(Sub-text)بھی ہے ۔یونانی اسطورہ میں مادر عظمیٰ کو دیمیتر کا نام ملا ہے، جو زمین اورزرخیزی کی دیوی ہے۔ اس کا جشن منانے کا انوکھا طریقہ تھا۔ ایک غار میں ننھے سؤر، سانپ ،انناس (جو بڑی حد تک قضیب کی علامت تھے)ڈال دیے جاتے ،تاکہ زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہو۔یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ غار کس شے کی علامت تھا۔فرشی صاحب کی نظم بتاتی ہے کہ آج غارمیں دیمیتر کی جگہ کوئی دیو بیٹھ گیا ہے ،جسے انسانی مساعی ،اس کی علامتوں کا احترام نہیں۔زرخیزی کے کلٹ کی جگہ ہوس کے ادارے نے لے لی ہے۔ یہ بھی اصل سے جدا ہونے کی ایک صورت ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ فرشی صاحب کی نظم داستانی، اساطیری عناصرکی طرف التفات بھی انفصال کے موتف کے تحت اور مادرِ عظمیٰ کے آرکی ٹائپ کی وجہ سے کرتی ہے۔
مادرِ عظمیٰ کا آرکی ٹائپ فطرت کی ان عظیم تخلیقی قوتوں سے متعلق ہے،جن کا انتہائی پر شکوہ، تقدیس سے لبریزتصور اساطیری ذہن نے کیا، اور انھیں پرستش کے قابل سمجھا۔ شعری تخیل میں یہ آرکی ٹائپ اپنے ظہور ہی سے اس امر کا اعلان ہے کہ فطرت کی عظیم تخلیقی قوت قابلِ تعظیم ہے اوراس کی کارفرمائی ان تمام طاقتوں کے مقابلے میں اس قوت کا تحفظ کرتی ہے ،جو مردانہ، تخریبی ، ہوس پرستانہ ہیں ، اور جو فطرت، زمین، عورت،شاعری،جمالیات ،عشق (جو اپنی خصوصیت کے اعتبار سے نسائی ہیں)کو وجودی اور علامتی دونوں سطحوں پر غارت کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کسی آرکی ٹائپ سے شاعر کی گہری باطنی وابستگی،اسے اپنے عصر سے بے نیازنہیں کرتی؛البتہ اسے اپنے عصر کی تفہیم کا ایک ایسا زاویہ ضرور دیتی ہے ،جو عصر کے سیدھے سادے سیاسی ،سماجی تجزیوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔شاعر آرکی ٹائپ کے ذریعے بنیادی انسانی صورت ِ حال تک پہنچتا ہے؛ دانش ِ قدیم ،اس کے جوہر،اس کے علامتی مظاہر تک رسائی حاصل کرتا ہے ،پھر اس کی روشنی میں زمانے ، عصر اور تاریخ کی سمت دکھائی دینے لگتی ہے۔وہ دانش ِ قدیم کو حکم نہیں بناتا، فقط اس کی علامتوں کے ناخن سے عصر کی پیچیدہ صورتِ حال کی گرہیں کھولتا اور زمانے کو دکھاتا ہے۔ فرشی صاحب کی نظموں میںہمیں معاصر عالمی اور مقامی تخریبی طاقتوں(سیاسی ، ٹیکنالوجیکل،صارفی) کی چیرہ دستیوں کا انکشاف ملتا ہے۔ان میں سے بعض نظمیں شہر آشوبیہ کہلائی جا سکتی ہیں۔خاص طور پر ’یعنی لایعنی ‘ اور’ مچھلی کا نٹا‘۔ یہ دونوں نظمیں معاصر صارفی کلچر کے لایعنی عناصر کو ’لایعنی انداز‘ میں سامنے لاتی ہیں۔ بے سمت، بے مہار سماجی اور صارفی قوتوں کو اسی اسلوب میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اردو میں آپ انھیں نئی تجرباتی نظمیں بھی کَہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ’ملت اسلامیہ ‘ (معلوم نہیں اس نام کی کوئی حقیقی شے موجود بھی ہے کہ نہیں) کی صورت حال کو نظم ’بندریا‘ میں گہرے ،مخفی طنز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کی’ ہمچو ما دیگرے نیست ‘والی ذہنیت پر شاعر نے کئی طرح سے چوٹ کی ہے۔بندریا[ایک نسائی کردار] کس کی تمثیل ہے اور تماشائی کس کی نمائندگی کرتے ہیں،یہ باتیں شاعر نے قارئین کے غور کے لیے چھوڑ دی ہیں۔ خیریہ بات ہمیں ان کے معاصر شعرا کے یہاں بھی ملتی ہے۔ا س ضمن میں فرشی صاحب کی نظم کا امتیاز یہ ہے کہ اس کی تہ میں تخلیق کی عظیم الشان ،دیوتائی نسائی علامت موجود ہے۔ اس ضمن میں نظم ’ریت‘ کو بہ طور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ نظم عراق پر امریکا اور نیٹو(آج کی مردانہ، تخریبی،ہوس پرستانہ قوتیں)کے حملے کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔نظم کا آغاز ایک اسطورہ کے حوالے سے ہوتا ہے جس میں سرخ سیلاب کی پیش گوئی پرومیتھیس کے آگ چرانے کے واقعے سے بھی پہلے ،یعنی ماضی بعید میں کہیں کی گئی تھی۔یہاں غالباًاشارہ گل گامش کے رزمیے کی طرف ہے جو دنیا کی قدیم ترین کہانی ہے۔ گل گامش ڈھائی ہزار قبل مسیح کے آس پاس عروق (کم و بیش موجودہ عراق)کا بادشاہ تھا،جب یونانی اساطیروجود میں نہیں آئی تھیں۔گل گامش کے رزمیے میں اتناپشتم سیلاب کا قصہ سناتا ہے۔ فرشی صاحب کی اس نظم کے جس پہلو کی وضاحت ہم کرنا چاہتے ہیں،وہ ریت کی تمثال ہے،جس کی جغرافیائی نسبت عراق سے ہے۔نظم میں ریت، بھنبھوڑنے والی ماں کی علامت بنی ہے،جس کی بھنبھوڑنے ،نگل جانے کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔
’’تو نہیں جانتا ریت کی پیاس کو
ریت کی بھوک کو
ریت کی بھوک ایسی کہ جس میں سماجائیں
لوہا اگلتے پہاڑوں کے سب سلسلے
پیاس ایسی کی جس میں اتر جائیں
سارے سمندر
ترے آنسوؤں کے!‘‘
یہاں دو باتیں غور طلب ہیں۔ لوہا اگلتے پہاڑوں کو نگل لینے کے باوجود ریت کی بھوک پیاس نہیں مٹتی۔یہ Devouring Motherکا ایک مکمل امیج ہے۔ یہ برباد کر دینے والی، مٹا ڈالنے والی قوت ہے ،مگرماں ہے،اور فطرت ہی کی مخفی قوت کی مظہر ہے۔لہٰذا اس کی بربادی کی قوت دنیا میںانتشارِ محض پھیلانے کا موجب نہیں،بل کہ اس کی تخریب کی تہ میں تنبیہ کے ساتھ ساتھ تعمیرِ نو کا تصور موجود ہے۔یہ نظم دنیا کی مردانہ،سراپا تخریب قوتوں کے لیے انتباہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اہم بات یہ کہ انتباہ کی نوعیت سیاسی نہیں، اسطوری، آرکی ٹائپل اورپیغمبرانہ ہے ۔یہ سیاست کے یک رخے مزاحمتی رویے کے مقابلے میں کہیں گہری ،دوررس صداقت کی حامل تنبیہ ہے!
کوئی ہے سننے والا!!
__________________________
حوالہ: ڈاکٹر ناصرعباس نیر،’’نظم کے معنی ،نظم سے باہر بھی ہیں‘‘علی محمد فرشی کی نظم نگاری،’یہ قصہ کیا ہے معنی کا‘،سنگِ میل،لاہور،۲۰۲۲ ،ص۱۱۹ تا ۱۳۴
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!