علی محمد فرشی کی استعارہ سازی

ڈاکٹرستیہ پال آنند

ن م راشد سے چلتے ہوئے، ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ اردو کے عظیم نظم گو شعرا سے مصافحہ کرتے ہوئے، جب ہم آزاد نظم کی ذیلی سڑک سے نثری نظم کی شاہراہ کا موڑ مڑتے ہیں تو ہمیں اس پر موٹروں، لاریوں، چھکڑوں، کاروں کا ایک جم غفیر ملتا ہے، جو صحیح سمت، رفتار یا ٹریفک کے قوانین کا تعین کیے بغیرچل رہا ہے۔ امیج اور استعاروں کی ریل پیل میں افراتفری اور بدانتظامی انبوہ گردی کی حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ ہر وہ شخص جو بزعم خود ’نثر لطیف‘ لکھ سکنے کا اہل ہے، سطروں کی کتر بیونت سے اسے نثری نظم کا چولاپہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھ تک اس قماش اور قبیل کے ’نظمیہ‘ مجموعے جب پہنچتے ہیں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ انگریزی اور اس کے بعد ہندی میں نثری نظم زمانے کی رفتار کے ساتھ کبھی آگے بڑھتی ہوئی، کبھی پیچھے ہٹتی ہوئی ، یعنی میانہ روی سے چلتی جا رہی ہے۔ لیکن اردو میں تو اس قبیل کی ’شاعری‘ انارکی کی حدتک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے جب میں علی محمد فرشی اور پنڈی اسکول آف امیجسٹ پوئٹری کے کچھ دیگر اراکین کی نثری نظموں کو دیکھتا ہوں تو مجھے یک گونہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان دوستوں کی نظموںمیں استعارے بے لگام گھوڑوں کی طرح خلیع العزار دوڑتے بھاگتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ بظاہر بے عناں استعارے بھی شطرنج کے مہروں کی طرح شاعر کے اذن سے ہی آمنا و صدقنا ، دائیں بائیں، یا آگے پیچھے چل پھر سکتے ہیں۔
استعارہ ہے کیا؟شاعری کی کثیر المعنیاتی تخم ریزیdisseminationمیں یہ کس طرح در آتا ہے؟تلازمۂ خیال association of ideaمیں یہ ایک تسبیح کے دانوں کی طرح کس طرح پرویا جاتا ہے؟ اس کے زاویوں یا قوسوں کو بڑھا کر اسے ’توسیعی استعارہ‘ extended metaphor کیسے بناتے ہیں؟ ان سوالات کی طرف توجہ دیے بغیر، لیکن علی محمد فرشی کی استعارہ سازی پر کچھ لکھنے سے پہلے مجھے امیج پیٹرن image patternکو دیکھناہو گا کہ استعارہ سازی میں کیسے امیجز کی تصویر سازی ترتیب دی جاتی ہے۔اس سلسلے میں مغرب کے ماہرین نے ان امور کی نشاندہی کی ہے۔
(۱) حصص کو جوڑنے کا عمل۔
(۲) امیج کی نامیاتی وحدت اور اس کا سٹرکچر۔
(۳) حصص کے انسلاک میں اور نامیاتی وحد ت کی بافت میں زبان و بیان کی کارکردگی۔
(۴) حصص کی مطابقت اور موافقت کا اسٹرکچر پر بوجھ (مبادا کہیں سٹرکچر بیٹھ ہی جائے)۔

(۲)
علی محمد فرشی کی نئی کتاب ’’محبت سے خالی دنوں میں‘‘کی نظمیں شایداس کتاب کے مبصر اور قارئین تو کیا فرشی کے احباب بھی اس تناظر میں نہ دیکھیں کہ خود شاعر نے ان پر ایک سرنامہ جڑ دیا ہے۔ یعنی ان نظموں کو شاعربزبان ِ خود ایسی تخلیقات تسلیم کرتا ہے جو محبت سے خالی دنوں میں یاتو (۱) تخلیق کے عمل سے گزریں،یا (۲) ان میں ایسے بے رس خالی دنوں کا لیکھا جوکھا ہے، جن میں محبت نہیں تھی!۔۔۔ خالی ؟ یعنی ایسے دن جن میں کسی چیز کی موجودگی کا فقدان ہو، کوئی شے گم شدہ یا محدوف ہوجائے۔۔۔اور وہ چیز ’محبت‘ نام کا جذبہ ہے جو اغلباً ان خالی دنوں سے پیشتر ہمہ جائی تھا، یہاں بود و باش رکھتا تھا ۔۔۔ تو گویا شاعر نے ہمیں یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ان نظموں میں رغبت کے احساسات کی نشست و برخاست بے معنی ہو گی۔اور اگر ہو گی بھی، تو ان کی موت پر نوحہ ہو گا، سینوں پر دوہتڑ مارے جائیں گے یا خاموشی سے آنسو بہائے جائیں گے۔
یہ نظمیں اس لحاظ سے اہم ہیں کہ استعارہ سازی کے عمل کے تحت تفقد و تولّا،چاہ اور چاہت کو ترک کرتے ہوئے ان جذبات کے عین منافی احساسات ، یعنی بیزاری ، بے تعلقی کی پرتیں کھولتی ہیں۔ نظم’’ذرا سی دیر میں‘‘ کو ہی لیں۔
ذرا سی دیر میں
پوری جنت تعمیر ہو گئی
آدھا جہنم بجھا دیا گیا
سات نئے آسمان کھول دیے گئے
زمین سے خدا کا فا ۔۔۔۔۔۔۔صلہ معلوم کر لیا گیا
اور میں اس عرصے میں
ایک بوسہ ہی تالیف کر سکا

ذرا سی دیر میں
میری بیٹی کا جیومیٹری باکس
جیولری باکس میں تبدیل ہو گیا
میرا بیٹا کو ہ قاف سے پری اُڑا لایا
میری بیوی کی دعائیں خدا کو چھونے لگیں
اور میں اس عرصے میں
ایک کتبہ ہی تصنیف کر سکا

ذرا سی دیر میں
ماں کی گود ویران ہو گئی
اور زمین کی کوکھ آباد
آدم خواب کی شاخیں
کہکشائوں کو سایہ فراہم کرنے لگیں
وقت کی بیل
نیلے مکان کی آخری منزل پر جا پہنچی
اور میں اس عرصے میں
صرف ایک زخم ہی تخلیق کر سکا
اس نظم میں ایک مسلسل اور طویل استعارہ تمثیل بنتے بنتے رہ گیا ہے۔ ’’ذرا سی دیر‘‘ ایک ایسی کڑی ہے جو حقیقت ِ حق ا ور استعارہ ٔ مجاز کے درمیان ایک پل صراط کا سا اپنا دورانیہ بچھائے ہوئے انسان کی عمر کے امکانیہ وقت کو شاعر کی ذات اور اس کے پریوار (بیوی، بیٹا اور بیٹی) میں ضم کر دیتی ہے۔ انسانی عمر کا دورانیہ جو جنت کی ’تعمیر‘ اور جہنم کے بجھا دیے جانے، سات آسمانوں کے کھلنے اور زمین سے خدا تک کا فا صلہ ( ’رقبہ‘ کی صورت میں) ماپنے کی چوکھٹ سے شروع ہوا تھا، ان انسانی متعلقات (بیوی، بیٹا اور بیٹی) کی عمر کے مقیاس سے زمین پیمائی کرتے ہوئے، بچپن سے۔۔۔ براستہ شباب ۔۔۔ بڑھاپے تک پہنچتا ہے ۔ ( بیٹی کے جیومٹری باکس کا جیولری باکس میں تبدیل ہو جانا ؍ بیٹے کا ایک حسین و جمیل دلہن کو بیاہ کر گھر لے آنا ؍ بیوی کا بستر ازدواج چھوڑ کر مصلیٰ کو اپنی ذات کا محور بنا لینا ) قیاس استقراء کے وہ اقدام ہیں، جو استعارے کی انگلی پکڑ کر اسے تمثیل کی طرف لے جاتے ہیں، لیکن ان مستطیل میں ایک چوتھا زاویہ بھی موجود ہے ، جو ’’میں‘‘ بطور شاعر ہے، (یعنی شاعر کا ’’میں‘‘ نہیں ہے !) اور شاعر کا یہ selfاس قلیل دورانیے میں ’’ ایک بوسہ ہی تالیف کر سکا‘‘ ۔ ’’ایک کتبہ ہی تصنیف کر سکا‘‘ یا (آخرش) ’’ایک زخم ہی تخلیق کر سکا‘‘۔
کسی کتاب کے پیش لفظ میں راقم الحروف نے ایک دوست کے تحریر کردہ یہ جملے مقتبس کیے تھے۔ ’’استعارہ (بہ شمول علامت) ایک مرئی نشان ہے، کسی غیر مرئی خیال، تصور، جذبے اور اصول کا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ تصور یا جذبہ، جو محض ایک ہیولے کی صورت میں تھا، استعارے کے ذریعے کسی ٹھوس اور ما دی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘ اور پھر یہ لکھا گیا تھا۔ ’’استعارہ اور اُس کیفیت یا حقیقت کے درمیں جس کی وہ نیابت کرے کسی رشتے کا موجود ہونا ضروری ہے۔ یہ رشتہ اتفاقی مماثلت یا مشابہت کی بنا پر ہو یا رواجاً تسلیم کیا جاتا ہو، لیکن استعارہ اور حقیقت کے درمیان یہ رشتہ ہی ہے جو مرئی کو غیر مرئی بناتے بناتے اتنی شکلیں بدلتا ہے کہ بسا اوقات اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔‘ یہ نظم اس کی ایک اچھی مثال ہے ۔

(۳)
ماہر نفسیاتPiagetاس بات پر مصر ہے کہ ایک استعارے کا ’زبان‘ کے میڈیم میں موجود ہونا ایک ایسا اسٹرکچر ہے جس کیEgocentric fixity اِسے ایک fixedاور مستقل جسامت دیتی ہے۔ اختر احسن (نیویارک)نے لکھا ہے(1)
Metaphor is when you say that something is another thing and simile is when you say that something is like another thing.
اختر احسن نے اپنی ایک درجن سے زائد کتب میں اس بات کو دہرایا ہے کہ استعارہ خود بخود ہی معرض وجود میں نہیں آتا۔ امیج کی مختلف کڑیوں کو جوڑ کر جس کثیر تعداد میں تصویری مفاہیم کے باہم انسلاک سے یہ بنتا ہے، اس میں مقابلے یا موازنے کا عنصر میکانکی ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس لیے بالمقابلہ امیج، استعار ے کیintellectual propertyکو ہم درگذر نہیں کر سکتے۔ جونہی استعار ے میں تاریخ سے، اسطورہ سے، یا مذہب سے کوئی بھولی بسری ہوئی بات ایک حوالہ بن کر استعارے کی بُنت میں ایک الگ رنگ کا تاگہ لے کر وارد ہو گی، یہ ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی،intelledctual property اس کی بیخ و بُن سے لے کر اس کی تمام جسامت میں اپنا مقام بناتی چلی جائے گی۔ صبرِ ایوبی، عدلِ نوشیرواں، رام چندر کا بن باس ، کربلا ، وغیرہ کی مثالیں موجود ہیں۔
اب فرشی کی کچھ اور نظموں میں اپنے ملک، مذہب ، دیو مالااور تاریخ سے مستعار استعاروں کو بنظر ِ غور دیکھیں۔زیر نظر اقتباس میں زمانۂ ماضی قریب سے استعاراتی دورانیہ شروع ہوتا ہے اور زمانہ ٔ حال تک پہنچتا ہے۔لیکن وہاں رکتا نہیں، مستقبل امکاں کا بھی ایک صریح اشارہ دیتا ہے۔
’بیسویں صدی کی جوانی میں
بوڑھی ضرورت کے بطن سے
دو مستانے بالکوں نے جنم لیا تھا
لیکن جب یہ ضعیف زچہ
بانجھ بڑھاپے کے بستر پر
آخری سانسیں گن تھی
تو تا ریخ کی تارکیوں میں
کئی نو خیز کنواری ضرورتیں
ایسے لا تعداد ناجائز بچوں کو جنم دے چکی تھیں
جو ’’فیٹ مین‘‘ اور ’’لٹل بوائے‘‘ سے
کہیں زیادہ موٹے اور شریر نکلے
لندن، پیرس، نیویارک، بیجنگ، ماسکو
دلی، اسلام آباد اور ان جیسے کئی خوب صورت شہر
ان شر پسند لونڈوں کی زد میں ہیں
وہ جب چاہیں گے
مونا لیزا اور وینس کی خواب گاہوں میں
پریوں اور اپسرائوں کی سیر گاہوں میں
ہیروشیما، اور ’ناگاساکی‘ رچائیں گے
موت کے ’’مچ ‘‘مچائیں گے‘
ماضی قریب ۔۔۔ دو موٹے اور شریر لونڈے، ’وار گیمز‘ (فیٹ مین اور لٹل بوائے) سے زیادہ تباہ کن، یعنی ایٹم بم جنہوں نے دو جاپانی شہروں کی آبادی کو نشانہ بنایا۔ زمانہ ٔ حال اور اس کے بعد مستقبل امکاں (سات تاریخی شہروں کے نام)، انسانی حسن و جمال کے دو کلاسیکی عالمی شہکار(ایک مورتی اور دوسری پینٹنگ) کے نام ۔۔۔ شاعر ایک باریک نکتے کو پچھتر برس کے دورانیے پر چھتری کی طرح تان دیتا ہے۔ یہ حالیہ تاریخ سے مستعار استعاراتی تانا بانا حقیقی بھی ہے اور نتائجی بھی۔ اس میں ذرا گہرائی پر زبان اور اشاریت کا آلاتیاتی استعمال بھی ہے۔ جیسے بموں کو شریر لڑکا نہ کہہ کر حقارت سے ’لونڈا‘ کہنا، یا مونا لیزا اور وینس کو پریوں اور اپسرائوں کی قطار میں جگہ دینا، یا موت کی خوفناک ترین صورت کوموت کا ’’مچ‘‘ کہنا ۔۔۔۔اور ان سب کے شروع میں ایٹم بموں کو ’’ناجائز بچے‘‘ کا خطاب دے کر شاعر نے اپنا عندیہ ظاہر کر دیا تھا کہ اس کا جھکاؤ کس طرف ہے۔
جن نظموں میں تاریخ، کلاسیکی ادب، مذہب، دیو مالا اور لوک کہانیوں سے ماخوذین کو مختصراً یا سلسلہ وار استعارات کی صورت میں پرویا گیا ہے، ان میں ’’نصف گلاس زندگی‘‘،’’آٹھواں اعتراف‘‘، ’’ عیب دار خوشی‘‘ ،’’ ہمیں دیوار بنانے کا ہنر نہیں آیا‘‘،’’مشینوں کا جنگل‘‘، ’’وہ میری موت پر آخری بار روئے گا‘‘، ’’اندھی معیشہ‘‘، ’’سندھ ساعت کی بد دعا‘‘ اور خواجہ خضر کا تحفہ‘‘ اور “Titan Man” حوالے کی نظمیں ہیں۔

(۴)
شیکسپیئر کے ڈرامے ’’میک بیتھ‘‘ کی شہرہ آفاق سطریں حسب ذیل ہیں یہ ایکٹ (۵)، سین (۵) سے ماخوذ ہیں۔ جب میک بیتھ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی لیڈی میک بیتھ کی موت واقع ہو گئی تو وہ یہ مکالمہ ادا کرتا ہے:
Out out, brief candle!
Life’s but a walking shadow, a poor player
That struts and frets his hour upon the stage
And then is heard no more; it is a tale
Told by an idiot, full of sound and fury
Signifying nothing!
اس اقتباس میں زندگی کا رشتہ کم از کم چار اشیا، کانسیپٹ یا مناظر سے استوار کیا گیا ہے، جو ’’مصور بیانیہ‘‘ کی تکنیک سے قاری یا سامع کے سامنے آتے ہیں۔
(۱)کچھ وقت تک جلنے والی موم بتی،
(۲) چلتا پھرتا ہوا سایہ،
(۳) ایک ناقص اداکار (جو قلیل وقت کے لیے اسٹیج پر آتا ہے)،
(۴)ایک ایسا قصہ جو ایک فاتر العقل شخص سناتا ہے ، اور جس میں بلند آہنگ آوازیں اور غیظ و غضب تو بہت ہوتا ہے، لیکن مطلب کچھ عیاں نہیں ہوتا۔
تو آئیں، فرشی کی کچھ نظموں کو دیکھیں کہ اُس کا طریق کار کیا ہے۔ میری رائے میں(۱)کہیں کہیں تو شاعرمترادف، مساوی، مماثل الفاظ کا ، جو معانی میں بھی ہم جلیس یا ہم شعار سمجھے جاتے ہیں، کھلے دل سے استعمال کرتا ہے۔ (۲) کہیں کہیں وہ الفاظ کو اہمیت نہ دے کر بغیر کسی تردد کے مقابلے یا موازنے کے لیے امیج = کانسیپٹ یا امیج = امیج مہیا کرتا چلا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر ایک تلبیسی سکّہ ہے جسے بغیر غور کیے متعدد شعرا استعمال کرتے ہیں، لیکن فرشی کے ہاں اس کا استعمال (بقدر ضرورت) کسی ذہنی کیفیت سے منسلک ہوتا ہے اور یہ استعاراتی استعمال، خود پر ایک اور پرت چڑھاتے ہوئے ، صرف استعارہ نہ رہ کر، اس ذہنی کیفیت کا ’’النکار‘‘ بن جاتا ہے ۔
میری بیٹی کا جیومیٹری باکس
جیولری باکس میں تبدیل ہو گیا (امیج = امیج) النکار
§§§§§
زمین سے خدا کا فا۔۔۔۔۔صلہ
معلوم کر لیا گیا (امیج = کانسیپٹ) النکار
§
تم وہی تو نہیں ہو
جس نے میرا سویٹر بُننے کے لیے
اپنی عمر ادھیڑ لی تھی (امیج = کانسیپٹ) النکار
§
میرا انتظار کاٹتے کاٹتے
اپنا بڑھاپا سی لیا تھا (امیج=کانسیپٹ) النکار
§
میری تاریخ پیدائش
وقت کے ہاتھ کی لکیروں میں کوڈ ہے : (امیج = کانسیپٹ) النکار
§
جس نے تمھاری ہتھیلی پر
دوسرے جنم میں ملنے کا وعدہ
اپنے ہونٹوں کے واٹر کلر سے پینٹ کیا تھا (امیج = کانسیپٹ = امیج ) النکار
کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں، جن میں یہ مساوی الاضلاع امیج اور کانسیپٹ، مرادف اور تعدیل کے ذیل میں ساتھی سنگیوں کی طرح چلتے ہوئے ’’النکار‘‘ بن جاتے ہیں۔ ان نظموں میں “Zipper” ، ’’ہم نے ذات کا ذائقہ دریافت کیا‘‘، ’’بے وطن خوابوں کا سفر نامہ‘‘، ’’نصف گلاس زندگی‘‘،’’برف باری سے پہلے پہلے‘‘ سر فہرست ہیں۔ یہ ایک اتفاقی امر تھا کہ ان نظموں کو دوسری یا تیسری بار پڑھتے ہوئے مجھے ان کی بنت کے ریشمی دوپٹے سے ایک اور خصوصیت سر نکالے ہوئے اپنی منہ دکھائی کی خواہش مند نظر آئی۔ وہ یہ تھی کہ مرکزی استعارے کو فرشی کچھ نظموں کے شروع میں ہی ایک خام خاکے کی شکل میں ابھارتے ہیں اور پھر چلتے، آگے بڑھتے ہوئے، سطر بہ سطر اس میں نئی لکیریں کھینچتے ہیں اور نئے نئے رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ خصوصیت اِس کتاب میں مشمولہ تمام نظموں کا خاصہ نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے طریق ِ کار میں فرشی لکیر کے فقیر نہیں ہیں۔
(۵)
شیکسپیئر کے ’’ میکبیتھ‘‘ سے مستعار اس کے ہیرو کی خود کلامی soliloquy سے ہم نے یہ اخذ کیا تھا کہ استعارے کی صحیح حالت وہ ہے جب امیج یا Object مساوی کانسیپٹ کے مقابلے یا موازنے کے عمل میں ایک فریق کے اصلی نام کو خارج کر دیا جائے، یہاں تک کہ صرف اس کی وہ صفات ہی باقی رہ جائیں جو دوسرے فریق کے مد مقابل رکھی جا سکتی ہیں۔ مبا دا کہ اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ استعارہ سازی ایک میکانکی عمل ہے ۔ شاعر کی ذہنی سطح پر تغیر و تبدل کے عمل میں ہچکولے کھاتے ہوئے دونوں امیج (کانسیپٹ یا آبجیکٹ) ایک ساتھ وارد ہوتے ہیں اور خلق ہونے کے پراسس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا، چپٹے ہوئے، چمٹے ہوئے، اس طرح نظم میں جزبند ہو جاتے ہیں کہ اپنی جڑواں اشکال میں الگ الگ نہیں، ایک جیسے بھی نہیں، بلکہ Two-in-one کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اور ایسے اضافی الفاظ ’’جیسے‘‘، ’’جس طرح‘‘یا اردو کی کلاسیکی شاعری میں ’’جوں‘‘۔۔۔وغیرہ خارج از امکان ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہر شاعر کے ہاں طریق کار اس کی اپنی انفرادیت کے مطابق ہوتا ہے (اور ایسا ہونا بھی چاہیے، کیونکہ اگر ایکٰ کو ایکٰ سے جوڑ کر دو (۲) بنیں، اور دو اور دو ہمیشہ چار ہی بنیں تو یہ ریاضی کا قاعدہ ٹھہرے گا، استعارہ سازی کا عمل نہیں۔) ایک ہی نظم سے صرف دو مثالیں اس فرق کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں:
ایک دن میرے ماں باپ
اپنا دکھ سکھ با نٹ رہے تھے
بے دھیانی میں انہوں نے مجھے بھی بانٹ لیا (’’بے وطن خوابوں کا سفر نامہ‘‘ کا پہلا بند)
§
میرے خوابوں کی طرف دونوں کا دھیان نہیں گیا
ننھے منے لاوارث خواب
گم نام راستوں پر چلتے چلتے بوڑھے ہو گئے
تم انھیں آج بھی
اس شہر کی گلیوں میں
اپنا گھر تلاش کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہو (’’بے وطن خوابوں کا سفر نامہ‘‘۔ آخری بند)
اس کتاب میں فرشی کا نظموں کی بُنت، مصارع کی ساخت اور تراش ، زبان اور بیان کی سطح پر فارسی آمیز اصطلاحوں، عسیر الفہم تعبیہ اور تعمیہ سے کلیتاً آزادی، اضافتوں سے پرہیز ایک مثبت قدم ہے۔ بیشتر نظمیں نسبتاً مختصر ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سطروں کی تراش سے، پھانک پھانک اور ڈلی ڈلی آپس میں پیوست ہوتی ہوئی نظم کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ایک مرکزی استعارہ پوری نظم کا احاطہ کرتا ہے یا پوری نظم کے وسط میں دل کی صورت بیٹھا ہوا دھڑکتا ہے، جیسے سائیکل کارواں دواں پہیہ ہو اپنی پوری تیزی سے گھوم رہا ہو اور بیچ کی دھُری سے درجنوں spokes یعنی تاریں نکل کر امیجز کی شکل میں اسے قائم بھی رکھے ہوئے ہوں اور اس عمل میں اسے تقویت بھی دے رہی ہوں۔ فرشی اس حقیت کو پہچانتے ہیں کہ امیج پیٹرن خود میںwhole یعنی ’کل‘ نہیں ہے، وہ صرف بنیادی استعارے کو کچھ مبہم ، کچھ واضح کرنے کا ، اِس کی نوک پلک سنوارنے کا ، یا اِس میں رنگ بھرنے کا عمل ہے۔لیکن اس کتاب کی کچھ نظموں میں مجھے اس وسیلے کی کمی محسوس ہوئی۔میں امید کرتا ہوں کہ فرشی کی آنے والی کتابیں نثری نظم میں زبان کے استعمال کو ثانوی درجہ نہ دے کراس اہمیت سمجھیں گی اور اسے معنیاتی تخم ریزی کے وسیلے کے طور پر استعمال کریں گی۔

مکرر نوشت
ڈاکٹر وزیر آغا کے رسالے ’’اوراق‘‘ میں مشمولہ میرے ایک پچیس برس پرانے مضمون بعنوان ’’استعارہ کیا ہے‘‘ سے ایک اقتباس: گذشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں ، استعارہ ،امیج اور سمبل کا زادِ راہ لے کر اردو شاعری کے قافلے میں شامل ہونے والا ایک نسبتاً نیا شاعر علی محمد فرشی ہے۔ فرشی کا انداز سب سے جداگانہ ہے۔۱۹۹۰ء کی دہائی کے شروع میں جب میں نے علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر، رفیق سندیلوی، انوار فطرت اور کچھ دیگر شعرا کی نظمیں پڑھیں تو ایک مضمون میں ان کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ شعرا کی یہ جماعتImagist School of Urdu Poetry ہے۔ بعد میں وضاحت کے طور پر میں نے یہ بھی کہا کہ انگریزی میں Ezra Pound & Louise Macneice کی طرح اردو میں یہImagistسکول کی پہلی قطار ہے۔ انگریزی ادب میں بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں وارد ہونے والے شاعر بھی یہی زاد ِ راہ لے کر چلے تھے، لیکن ان کے یہاں قطار اندر قطارImagesکی ایک فوج چلتے ہوئے بھی کسی مرکزی استعارے سے پیوست ہونے کا جوکھم نہیں اٹھاتی تھی۔ (بعد میں یہ کمی T.S.Eliot کے آنے کے بعد پوری ہوئی) ۔۔۔ دیگر شعرا جن پر یہ لیبل چسپاں کیا جا سکتا ہے، ان میں سر فہرستF.S.Flint, Amy Lowell, D.H. Lawrence تھے (اس تحریک کو تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو E.Goist’s کی کتاب (2)اس تحریک کے دورانیے ہی میں تحریر کردہ ایک معتبر ڈاکومینٹ ہے۔
میرا دیا ہوا یہ نام اس نسل اور اس عمر کے پنڈی؍اسلام آباد کے نظم گو شاعروں کے ساتھ کچھ ایسے چپک گیا ہے، کہ کئی برس پیشتر میرے نام ایک مراسلے میں بزرگ شاعر ضیاجالندھری صاحب نے بھی ان شعراکا ذکر ’’راولپنڈی اسکول آف امیجسٹ پوئٹری‘‘ کے وصفی نام کے ساتھ کیا ہے۔۔۔خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا!
علی محمد فرشی کی نظموں میں شیرینی گھلی ہوئی ہے۔ کڑوے، زہریلے، بدصورت امیج بھی لہجے کی شیرینی سے ترتیب پاتے ہیں۔ آیئے، فرشی کی ایک نظم کو لیں، اور دیکھیں کہ اس کا طریقِ ِ کار کیسا ہے۔ فرشی کا استعارہ سازی کاڈھنگ دیگر امیجسٹ شعرا سے مختلف اس طرح ہے، کہ وہ معصومیت اور سادگی سے اپنے امیج ابھارتا ہے، اور پھر جب ’’پنچ لائین‘‘ تک پہنچتا ہے تو ان امیجز کی ایک لمبی قطار ہاتھوں میں ہاتھ دیے ’’پنچ لائین‘‘ کے پیچھے چلتی نظر آتی ہے۔ تب آخری ایک یا دو سطروں میں ایک بچھو کے ڈنک کی طرح (عام فہم اردو میں) اس کا کلیدی امیج اُبھرتا ہے جو سب کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ مغرب میں اس تکنیک کو sting in the tail کہا گیا ہے۔ جیسے بچھو کا ڈنک اس کی دُم میں ہوتا ہے جب کہ سر سے لے کر دُم تک اس کا جسم بے ضرر ہوتا ہے۔
آئیے، اب نظم دیکھیں :
تماشا گروں نے
کبوتر نکالے تھے
شیشے کے خالی کنستر سے!
ماچس کی تیلی سے
بجلی کی کھمبا بنایا تھا
رسی پہ چلتی ہوئی ایک لڑکی
ہوا میں اُڑائی تھی
بندر کے اندر سے
انسانی بچہ نکالا تھا

سب لوگ حیران تھے
کیسے جادو گروں نے
پرندے کو راکٹ بنایا
پتنگے کی دُم سے سٹنگر نکالا
طلسماتی ہاتھوں سے
گیندوں کی مانند ایٹم بموں کو اچھالا

تماشائی حیران تھے
کیسے جادو گروں نے
زمیں
راکھ کی ایک مُٹھی میں تبدیل کر دی!!
دو الفاظ اہم ترین ہیں۔ ایک پہلے بند میں ہے ۔ ’’تماشا گر‘‘ اور ایک آخری بند میں ہے۔’’تماشائی‘‘۔ استعارے کی روح ان دونوں میں سمٹی ہوئی ہے۔ مداری ، یعنی تماشا گر (جنھیں مغرب میں، اور خصوصی طور پر امریکا میں Illusionists کہا جاتا ہے ) اپنا کھیل دکھا رہے ہیں۔ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ’’تماشا گروں‘‘ صیغہ ٔ جمع ہے۔ یعنی مداری ایک نہیں ہے،کئی ہیں ۔۔۔۔’’سب لوگ حیران تھے۔‘‘ یہ جملہ چار امیجز کے بعد آتا ہے۔ یہ چار امیج ’’شیشے کے کنستر سے کبوتر نکالنا‘‘، ’’ماچس کی تیلی سے بجلی کا کھمبا بنانا‘‘ ،’’رسی پر چلتی ہوئی لڑکی کو ہوا میں اڑانا‘‘ اور ’’بندر کے اندر سے انسانی بچہ نکالنا‘‘ ہیں۔ یہ سب امیج عام مداری کے ہیں، لیکن استعارے کی سطح پر یہ سائنس کے وہ کرشمے ہیں، جو نصف صدی پہلے تک خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔
اب امیجز زمین سے ہوا، خلا یعنی آسمان کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ ’’تماشا گروں‘‘ کی جگہ (چپکے سے، یعنی قاری کو اس کا پتہ چلے بغیر) ’’جادو گروں ‘‘ نے لے لی ہے جو طلسمات کے ماہر ہیں، صرف سڑک کے کنارے پر بچوں کو اپنا کھیل دکھانے والے مداری نہیں ہیں۔ ’’پرندے کو راکٹ بنایا‘‘۔۔۔۔ ’’پتنگے کی دُم سے اس کا ڈنک نکالا ‘‘ ۔۔۔ اور پھر ایٹم بموں کو گیند کی طرح اچھالا۔۔۔ یہ ہیں وہ امیج جو درجہ بہ درجہ اپنی ہیئت اور کار کردگی میں ایک معصوم تماشے کو بے حد پر خطر، تباہی کی طرف لے جانے کا اعلامیہ ہیں۔ راکٹ، ہم سب جانتے ہیں، اپنی ’’دُم‘‘ میں سے آگ نکالتے ہوئے اُڑتا ہے۔ یہ وہ پتنگا ہے، جو اپنے منہ میں ایٹم بم اٹھائے ہوئے دور تک پرواز کرتا ہے۔ آخری سطر اُس ’’پنچ لائین‘‘ کو پیش کرتی ہے، میں نے جس کے بارے میں ’’بچھو کے ڈنک ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا تھا۔ ’’کیسے جادو گروں نے ؍ زمیں ؍ راکھ کی ایک مٹھی میں تبدیل کر دی!!‘‘
’’تماشائی‘‘ کون ہیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے (اور جواز بھی نہیں ہے)۔ زمین تو راکھ کی مٹھی میں تبدیل ہو گئی۔لوگ تو مر گئے۔ زمین پر تو زندگی ختم ہو گئی۔ تو کیا یہ تماشائی دوسری دنیائوں پر رہنے والی وہ مخلوق ہے (یا مخلوقات ہیں) جو ہماری بد کرداریوں کو اندیشے کی نظر سے دیکھ رہی ہیں؟ لیکن یہ مطلب اخذ کرنے میں نظم کا قاری بھی اتنا ہی شریک ہے، جتنا کہ شاعر۔
The image acts on consciousness and also makes consciousness react. The image is in the eye of the beholder, meant for beholding the universe, and the beholder is not an investigator, but a participator. (Hebb, 1968)
_______________________________
“Trojan Horse, Imagery in psychology, art, literature and politics”
“The History of Imagism London”
ــــ
حوالہ: ڈاکٹرستیہ پال آنند،علی محمد فرشی کی استعارہ سازی،ماہ نامہ’’ادب دوست‘‘ لاہور،جون،۲۰۱۷ء، ص۲۵ تا ۳۳
ــــ

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *