Rivers Hurry Past by Yasmeen Hameed

علی محمد فرشی
دریا جلدی میں ہوتے ہیں

نیند میں باتیں کرنے والی لڑکی
کہتی تھی
دریا جلدی میں ہوتے ہیں
خشک زمینوں کے رستے میں کب رکتے ہیں
مرنے والے بوڑھے لمحے کیسے واپس آسکتے ہیں
برفانی طوفانوں میں گھِر جانے والی چڑیاں
لمبی گرم اڑانوں کی خواہش
سرد ہوا کے ہاتھوں پر لکھنے سے پہلے مرجاتی ہیں
وقت کا سایا جن کے سر پر آ جاتا ہے
کچی آنکھیں، سچے خواب، اُدھوری نیند چبا جاتا ہے
پِیلا موسم چپکے سے، ساری ہریالی کھا جاتا ہے
طوفانی بارش
دور کناروں تک گِرتی ہے
قبروں میں سوئی یادیں گیلی ہو جاتی ہیں
چہرے کتبے بن جاتے ہیں
مرنے والے بوڑھے لمحے
سانپوں کے لچکیلے جسم بدل لیتے ہیں
جلدی میں جانے والے دریا
واپس آ کر سارا شہر نگل لیتے ہیں!

نیند میں باتیں کرنے والی لڑکی کہتی تھی

Rivers Hurry Past

The girl, talking in sleep says:
Rivers hurry past
for arid lands, they do not pause;
how can moments,
old and dead, return.

Sparrows trapped in snow-storms die
before their wish for warm, extended flights
can be writ on hands of cold winds;
overwhelmed by the ghost of time
that chews up innocent eyes,
candid dreams, unfinished sleep.

The pale season eats up
all that is green;
thundering rain
beats the horizon,
soak memories dozing in graves;
faces become tombstones.

Old dead moments,
into supple snake-bodies, transform.
Rivers hurrying past
return to swallow
a whole city,
says the girl, talking in the sleep.

(Translated by Yasmeen Hameed)