Living Death by Yasmeen Hameed

علی محمد فرشی
زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی

کسی چڑیا کے گیتوں کو
کسی تتلی کے بوسے کو
کسی گڑیا کے جوتوں او رجرابوں کو
کسی لڑکے کے خوابوں کو
کسی معصوم فطرت کو
کسی کم سن شرارت کو
محبت کو
کبھی دیمک نہیں کھاتی!

پرانی خانقاہوں پر
نئے وعدوں کی رسموں کو
جدائی کے جنم دن کو
وصالی رُت کی راتوں میں
بچھڑ جانے کی باتوں کو

جدائی کے پرندے کو
پرندے کے پروں پر دور تک پھیلے سرابوں کو
سرابوں کے کناروں پر
کھڑے خاموش برفیلے پہاڑوں کو
پہاڑوں سے بڑی تنہائی کے غم کو

بڑے غم کی کتابوں کو
کتابوں پر ٹپکتے آنسوؤں میں
بھیگتی راتوں کے جنگل کو
سیہ راتوں میں روشن دن کے خوابوں کو
صداقت کے نصابوں کو
گھنی نظموں کے جنگل میں
نئے رنگوں کے پھولوں کو
نئے پھولوں کی خوشبو کو
نئی خوشبو میں بھیگی مورنی کو
رقص کرتے مورکے دکھ کو

فنا کے دھوپ زاروں میں
خوشی کی برف کے غم کو
ذرا سی زندگی کو
اور بہت سی موت کو دیمک نہیں کھاتی
کبھی دیمک نہیں کھاتی !

Living Death does not Erode

Songs of a Sparrow,
a butterfly’s kiss,
a doll’s shoes and socks,
a boy’s dreams,
a chaste temper,
a child’s prank,
and love
are never eaten by termites.

The custom of
renewing promises
on ancient shrines,
the that marks
the birth of separation,
words of departing
in the nights of the seasons of love

The bird bidding farewell,
illusive images borne on its wings,
bordered by
silent, snow-covered mountains,
surpassing their might,
the agony of loneliness.

Books, born of a great suffering,
drizzly nights of tears,
dreams in pitch dark nights
of a radiant day,
proposals of truth,
thickets of intricate poems
with fresh-colored flowers,
drenched in their novel scent,
the peacock, and the anguish
of her dancing mate

in the sun-scorched expanse of sorrows
the pain of icy happiness,
a small slice of life
and much of the death
are never,
never eaten by termites

(Translated by Yasmin Hameed)