ہوا مر گئی ہے تجزیاتی مطالعہ : پروین طاہر
ہوا مر گئی ہے
تجزیاتی مطالعہ : پروین طاہر
علی محمد فرشی نظم جدید کے امیجسٹ سکول کے شعرا میں اپنے طریقہ کار اور قطعی منفرد اُسلوب کی وجہ سے ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ امیج سازی اس کی شعری فطرت اور سمبلزم اس کی فنی مہارت ہے اور یہی اس کا اہم ترین تخلیقی رجحان بھی۔ اکژاوقات اس کے ہاں امیج اور سمبل یوں مدغم ہوجاتے ہیں کہ قاری کے لیے یہ شناخت کرنا ایک مشکل عمل بن جاتا ہے کہ وہ سمبل سے امیج تراش رہا ہے یا امیج کوبہ طور سمبل پیش کرنا چاہتا ہے۔ کیوںکہ سمبل اور امیج کا یہ ادغام اپنے اندر ایک فطری بہائو رکھتا ہے جس کے سوتے اس کے لاشعور سے پھوٹتے ہیں۔اس کے ہاں سمبل بیک وقت پیچیدہ بھی ہے اور جمالیاتی سطح پر احساسات کو چھوتا ہوا لطیف تر بھی ۔
فرشی ا میج سازی کے تمام طریقہ ہائے کار کو استعمال میں لاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی نظم میں کولاژ جیسی کیفیت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ماڈرن آرٹ کی رو سے سمبلزم دراصل آرٹ کی نئی اقسام نئی Plastic Realitiesکے اظہار کے لیے نئے مواد اور نئے قوانین کی تلاش ہے۔ یہ تلاش بہ ذات خود اپنے اندر نئی معنویت لیے ہوئے ہے نہ کہ قدیم تاریخی و اساطیری معنویت کی اگلی کڑی ۔اسی لیے سمبلزم میں کسی فن کار ،ادیب یا شاعر کو اپنے ذاتی اور منفرد اسلوبیاتی منطقے تعمیر کرنے اور متعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
”For the symbolist the reality of inner idea of the dream or symbol was paramount but could be expressed only obliquely as a series of images or analogies out of which the final revelation might emerge”
علی محمدفرشی کے ہاں علامت کاری کا نظام اپنی تمام تر بنیادی خصوصیات کو اپنے اندر سموئے کمال ِفن کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔ کیوںکہ اس کے ہاں سمبل ریڈیکل بھی ہے اور سیریز آف امیجز کی مدد سے بنتے دائمی سچائیوں کو جانے والے راستے کا Clueبھی۔ اگر چہ اس کے ہاں ایکسپریشن Oblique‘ سپائر ل اور پیچیدہ ہے مگر ذرا اندر جھانکنے سے یہی پیچیدگی Multidimensional اپروچ پر منتج ہوتی ہے۔
’’ہوا مرگئی ہے‘‘ اسلوب وفکر کے لحاظ سے فرشی کی نمائندہ نظموں میں سے ایک ہے جو اس کے اسلوبیاتی ارتقاکی بنیادی کڑی اور بعد میں آنے و الی نظموں کے طریقہ کار کی پیش کردگی بھی۔ نظم کا عنوان کلید کے علاوہ نظم کے علامتی نظام کا آغاز بھی ہے۔عنوان میں ’’ہوا‘‘ اہم ترین لفظ ہے۔ ہوا جوکہ عناصر اربعہ میں اہم ترین عنصر کی حیثیت رکھتی ہے اور کائنات میں کسی بھی جگہ زندگی کی کسی بھی صورت کی پہلی شرط۔اگر ہم اس لفظ کے تاریخی و لسانی پس منظر میں جھانکیں تو اس کے معنوی رشتے و ایو سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وایو ان تین اہم ترین دیوتائوں میں سے ایک ہے جو آریا اپنے ساتھ لے کر برصغیرمیں وارد ہوئے۔وایو اپنی زندگی بخش اور قوت آمیز خصوصیات کی وجہ سے اس سرزمین پر مقبول ہوا اور لسانی تفاعل کے نتیجہ میں پنجابی زبان میں وا اور عربی زبان کے اثرات قبول کرتے ہوئے بالا آخر ہوا کی شکل میں مروج ہوا۔وایوچوںکہ ہوا کا دیوتا تھا اس لیے مختلف سمتوں سے چلنے والی ہوائوں کے لا حقے کے طور پر بھی استعمال ہوا۔جیسا کہ پروا اور پچھوا ۔اساطیر کے تقابلی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ وایو سو میرین دیوتا ان لیل یا ایا اور مصری دیوتا شو جیسی خصوصیات کا حامل ہے۔
سائنس اور طبیعیات کی رو سے ہوا نہ صرف حیات کی رونمائی کے لیے ضروری ہے بل کہ یہ آواز کی لہروں کی Carrier بھی ہے۔ اس کے بغیر آواز کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل ممکن نہیں۔آواز سے متعلقہ تمام خوب صورتیاں الفاظ ،موسیقی،گیت ،پرندوں کی چہچہاہٹ، بچوں کی کلکاریاں اور جھرنوں کا ترنم سب ہوا کی بہ دولت ہی ممکن ہے۔لہذا ہوا خوب صورتی ‘ معصومیت ‘ غنائیت،افادیت،زندگی اور با لواسطہ اظہار کی علامت بنتی ہے۔اور آواز ہی منسلک منفی خصوصیات مثلاً بجلی کی کڑک ،زلزلے کی گڑگڑاہٹ ،بموںکے دھما کوں اور صنعتی معاشرے کے بے ہنگم شور کے وجہ سے طاقت ،غرور،تباہی اور مسماریت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
اردو کلا سیکی شاعری میں ہوا محاورے،تشبیہ اور استعارے سے آگے کا سفر نہ کر سکی اور زیادہ سے زیادہ پھول کھلانے والی باد نسیم،پیام لانے والی باد سحری اور محبوب کی خوش بو کا پتا دیتی باد صبا ہی بن پائی۔اردو نظـم میں جب علامتی تحریک کا چلن ہوا تو شاعروں نے ہوا کے معنوی بطون کو دریافت کیا اور جب یہ سمبل علی محمد فرشی کے ہاں استعمال ہوا تو اس نے اس لفظ سے معانی اور مفاہیم کا ’’آخری قطرہ‘‘تک نچوڑ لیا۔
ابھی شام چوکھٹ سے لگ کر کھڑی
کپکپاتے ہوئے سرد ہاتھوں سے
جاتے ہوئے سال کو الوداع کَہ رہی تھی
کہ ٹی وی نے اپنے خصوصی بلیٹن میں
اس سانحے کی خبر دی
خبر پڑھنے والی کی آنکھوں پہ افسوس کی تیز بارش تھی
ہونٹوں سے الفاظ یوں ٹوٹ کر گر رہے تھے
کہ جیسے خزاں کی کسی رات کو تیز آندھی چلے تو
درختوں کے پتے
بکھرتے،بچھڑتے ہوئے دربہ در
کھڑکیوں سے پنہ مانگتے ہیں
نظم افقی اور عمودی دونوں اطراف میں بہ یک وقت چلتی ہوئی دو ایسے دائرے بناتی ہے جسے ہم افقی دائرہ اور عمودی دائرہ کَہ سکتے ہیں یہ دونوں دائرے اپنی اپنی شناخت رکھتے ہوئے اپنی جگہ مکمل بھی ہیں اور باہم منسلک بھی کیوںکہ دونوں دائروں کا مرکزی ماخذ ایک ہی ہے۔
نظم کا آغاز انتہائی ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے۔یہ کسی ایسی اداس،سہمی اور ویران شام کا ذکر ہے جب ٹی وی کے خصوصی بلیٹن سے کسی عظیم سانحے کی خبر نشر کی جارہی ہے۔یہ خبر اتنی اندوہ ناک اور ناقابل یقین ہے کہ سارا ماحول اسی خبر کی اداسی میں ڈوبا نظر آتا ہے۔نظم کی پہلی قرأت سے پتا چلتا ہے کہ یہ سانحہ کوئی تلمیح یا ماضی بعید میں پیش آنے والا کوئی واقعہ نہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور یعنی دور حاضریا ماضی قریب کا کوئی واقعہ ہے۔یہ نظم اسی(۸۰)کی دہائی میں تخلیق ہوئی۔یہ وہ دہائی ہے جب بڑی طاقتیں خصوصاً سامراجی قوتیں تھرڈ ورلڈ پر سیاسی، سماجی اور معاشی قبضہ جمانے کی کوششوں میں بری طرح مشغول تھیں اسی لیے انقلابی قوتوں،ریڈیکل شخصیات اور تھرڈ ورلڈ لیڈر شپ کو فیل کرنے کا عمل پوی دنیا میں جاری و ساری تھا۔یہ عمل غیر محسوس طریقے سے پاکستان میں ستر کی دہائی کے اواخر میں اثر پذیر ہو چکا تھا۔
پہلے بند کی تمام سطور ایک خاص کیفیت میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔انائونسر کی آنکھوں پر افسوس کی تیز بارش اور الفاظ کا ہونٹوں سے ٹوٹ کر گرنا دراصل اس سانحے سے منسلک دکھ کے پھیلائو کی طرف اشارہ ہے۔یوں کہ خبر دینے والی خبر دینے پر مجبور ہے۔اگرچہ اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہ سکتے لیکن ان پر اتری افسوس کی تیز بارش کو ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پھر اناؤنسر کی باطنی کیفیت اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے اظہار کے طور پر لفظوں کو خزاں رسیدہ پتوں کی مانند گرتے دکھایا گیا ہے۔
نظم کی یہ جہت تو افقی ہے کیوںکہ اس میں پھیلاؤ ہے عمودی سمت سے نظم کے باطن میں جھانکا جاے تو ہوا زندگی،امید اور مستقبل کی علامت بنتی ہے جس کے مفقود اور مخدوش ہو جانے سے اجتماعی زندگی میں فکرمندی سراسیمگی اور خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور عام آدمی کے لیے زندگی کے تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ یہ دونوں جہات دراصل ایک ہی دور کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جب عالمی سطح پر چھوٹی قوموں کی خود محتاری ختم کرنے اور انھیں اپنا معاشی غلام بنانے کی سازش کی جا رہی تھی اسی عہد میں پاکستان نے عالمی بینک سے قرضہ لے کر اپنی معاشی آزادی کو داؤ پر لگا دیا اور آہستہ آہستہ ہم عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑ ے گئے۔
نہ جانے وہ کیا کَہ رہی تھی
بس اک دکھ ہی دکھ تھا
ٹپکتا ہوا
سرخ قالین تک آ گیا تھا
’’ہوا مر گئی ہے‘‘
سبھی مسجدوں، ہوٹلوں ،قہوہ خانوں ،گھروں میں
یہی اک خبر تھی
ہوا مر گئی ہے!
ہوا مر گئی ہے!!
یہ بند اس سانحے کی خبر نشر ہونے کے بعد دیکھنے اور سننے والوں کی ذہنی کیفیت کا پتا دیتا ہے۔ ’’نہ جانے وہ کیا کَہ رہی تھی‘‘ سے اشارہ ملتا ہے کہ خبر کی Head Lineاتنی غیر متوقع اور ناقابل یقین تھی کہ اس نے سننے والوں کو مبہوت کر دیا اور وہ خبر کی تفصیلات کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ شاعر نے اپنی انتہائی حساسیت سے نیوز روم میں بچھے سرخ قالین کے رنگ کو بھی اسی دکھ کے رنگ میں رنگ دیا اور یہ دکھ تمام اطراف میں یوں پھیل گیا کہ تمام عوامی مراکز، مسجدوں، ہوٹلوں، ریستورانوں حتیٰ کہ گھروں کے اند ربھی اسی سانحے کا دکھ بَہ رہا تھا۔
صحافی ،معلم، ادیب اورشاعر
مسافر ،قلی ، ریل باں ،ڈاکیے
کارخانو ںکے مزدور دفتر کے بابو
شفاخانوں کے ڈاکٹر او رنرسیں
سبھی چھابڑی والے
اخبار کے سارے ہاکر
پریشا ن تھے
سب کے ہونٹوں پہ تالے پڑے
اور آنکھوں میں حیرت کے نیزے گڑے تھے
نظم کا تیسرا بند اس روح فرسا خبر کے پھیلنے کے بعد ردعمل کے ڈرامائی ارتقا کی اگلی سٹیج ہے۔ یوں لگتاہے جیسے سب تعطل اور اضمحال کی کیفیت سے دو چار ہیں او ربے یقینی کے کرب میں مبتلا ہیں۔ دراصل لوگ اپنے آئیڈیل کی موت اور اپنے خوابوں کا انہدام برداشت نہیں کر سکے یہ خواب ریڑھی بانوں،ہاکروں، کلرکوں، چھابڑی والوں، مزدوروں اور قلیوں کے خواب تھے۔ یہ لوگ اپنے یوٹوپیا سے دست برداری کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ اپنے یوٹوپیا سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جس طرح کوئی محب وطن اپنی دھرتی سے۔ یہ ان کے خیالوں میں بسی ایک ایسی دھرتی تھی جہاں ان کا آنے والا کل کسی روشن ماہتاب کی طرح جگمگا رہا تھا۔ اس بند سے شاعر کے طبقاتی اور عصری شعور کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ نیند میں چلنے والے انھی خواب زادوں میں سے ایک تھا جو روشن مستقبل کی امید کے حصار میں تھے لہٰذا یہ موت ایک شخص کی نہیں بل کہ ایک عہد کی موت تھی۔ تاریخ اپنے ایک دو رسے نکل کر دوسرے میں داخل ہو رہی تھی۔ پہلا دور اقتدار اور جدوجہد کا دور تھا اور دوسرا مکمل بے اختیاری اور وقت کے سامنے ہار ماننے کا۔ ادوار کے اسی سنگ میل پر قومیں بہ حیثیت مجموعی فرسٹریشن اور یاسیت کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کیفیات کو شاعر نے بڑی خوب صورتی سےPoetrify کیا ہے۔
’’ہواکون تھی؟‘‘
ایک معصوم لڑکی نے امی سے پوچھا
’’ہوا ایک ننھی سی گڑیا تھی اک صبح اسکول کا راستہ بھول کر
جنگلو ںکی طرف چل پڑی
اور وہاں ہاتھیوں نے اسے روند ڈالا!‘‘
اس نظم میں موجود ڈرامائی عنصر کی تکنیک کے فریم میں اگر نظم کو دیکھا جائے تو یہ وہ پہلا مقام ہے جہاں نظم میں موجود تمام کردار حیرت، خوف و ہراس، بے یقینی اور سکتے کی کیفیت سے باہر نکلتے نظر آتے ہیں اور مکالمہ شروع ہوتاہے۔ ’’ہوا کون تھی‘‘ یہ وہ پہلا سوال ہے جو ایک معصوم لڑکی (جسے اس سانحے کی سنگینی کا مکمل ادراک نہیں) اپنی ماں سے پوچھتی ہے اور اسی مقام سے نظم ہوا کی علامت کو تہ در تہ کھولنا شروع کرتی ہے۔ اس بندمیں ہوا کے علاوہ جنگل اور ہاتھی علامتی الفاظ ہیں جن کے معانی کو مختلف زاویوں سے exploreکیا جا سکتا ہے۔
پہلی جہت کے مطابق ہوا ان نوعمر لڑکیوں کی علامت ہے جو خوابوں کے بے انت جنگل میں گم ہو جاتی ہیں انھیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ان جنگلوں میں محبت کے دل آویز مناظر کے علاوہ ہاتھیوں اور درندوں جیسی مخلوقات بھی ہیں جو انھیں ذرا سی آنکھ موند لینے پر روندنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ یہاں جنگل محبت کے الیوژن کی علامت بنا ہے اور ہاتھی جنسی تشد دکی۔ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں جہاں اسکول کا راستہ بھول جانے والی لڑکیوں کو پھر کبھی گھر کا راستہ نہیں ملتا اور جنسی exploitationجن کا مقدر بنتی ہے خواہ وہ جسمانی موت نہ بھی مریں انھیں سماجی ضمیر کی عدالت میں اخلاق اور حیا کا مجرم ٹھہرا کر ان کی عزت نفس کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا جاتا ہے۔
اس بند کی دوسری جہت نظم کے مرکزی موضوع سے مربوط ہے۔ ننھی گڑیا بچپن کے حوالے سے مستقبل کی علامت قرار پاتی ہے اور مستقبل امید اور امکان کی معنویت سے لبریز ہوتا ہے اس لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا سانحہ دراصل امید اور امکان کے کچلے جانے کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندے جانے والی یہ معصوم گڑیا دراصل تھرڈ ورلڈ کی وہ روشن امید تھی جسے استعماری قوتوں نے بڑی بے دردی سے کچل دیا۔ اسکول کا راستہ بھولنے سے مراد قومو ںکے اپنے اوریجنل تشخص سے detract ہو جانا ،اپنا معیار تعلیم بلند نہ کرنا اور اپنے وسائل پر بھروسا کرنے کی بہ جائے بڑی قوتوں اور عالمی تنظیموں سے امداد و تعاون کی امید لگانا ہے۔ جس کا نتیجہ یقینا قومی حمیت کی موت کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اس بند کی تیسری جہت روح اور جسم کا قضیہ بھی ہے۔ ہوا روح کی علامت ہے جس کا تصادم جب بدنی تقاضوں ،ضرورتوں اور مجبوریوں سے ہوتا ہے تو یہ خارجی عوامل اس خوب صورت گڑیا کو کچل کر رکھ دیتے ہیں جب خارج طاقت ور ہو تو inner selfپامال ہو جاتا ہے اور اس سے منسلک روحانی لطافتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔
”بڑے چوک میں
ڈاک خانے کے باہر کھڑی ایک بڑھیا
(جسے لوگ پاگل سمجھتے تھے)
ہنستے ہوئے کَہ رہی تھی
’’ہوا اک بروگن تھی
جانے کسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی؟‘‘
اس بند کی پہلی جہت کے مطابق ہوا کی علامت بڑھیا کی زبانی خود اس کی اپنی کہانی ہے جو ساری زندگی گزارنے کے بعد انسان کی کائناتی حیثیت سے مایوس ہو کر اپنی ساری امید ہار چکی ہے۔ وہ خود ایسی بروگن تھی جو انسان کے کسی ارفع روپ کی منتظر تھی۔ جس کا انتظار اب دم توڑ چکا ہے اور زندہ ہونے کے باوجود خود کو زندگی سے تہی محسوس کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی بروگن تھی جس کے روگ کا علاج عمر بھر نہ ہو سکا۔ لفظ ڈاک خانے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی ایسے محبت بھرے پیام کی منتظر تھی جو اوائل عمر میں ا س کاخواب رہا۔
دوسری جہت نظم کے مرکزی موضوع کے ساتھ انسلاک رکھتی ہے۔ اگر اس بند کو ماقبل بند کے ساتھ مربوط کرکے دیکھیں تو یہ ننھی گڑیا کی کچلی ہوئی شخصیت کا عمر رسیدہ ،پامال اور منطقی روپ دکھائی دیتا ہے جو معنوی ارتقا کے بعد دیوانگی ،کسمپرسی او رمایوسی کی تجسیمی شکل اختیار کرگیا ہے اور اپنے معنوی پھیلاؤ میں کسی بڑے انسانی آدرش کے کچلے جانے کے بعد اب Collective Consciousnessکی حالت زار کا اندوہ ناک نمونہ دکھائی دیتا ہے اور بڑھیا بھی (عمر رسیدہ اور تجربہ کار ہونے کی بنیاد پر) وقت اور زندگی کا سمبل قرار پاتی ہے۔ ہوا اور بڑھیا کیDichotomyاپنے سمبالک ٹریٹمنٹ باوصف معنویت کے ارفع مقام کو چھو لیتی ہے۔ ہوا اور بڑھیا دونوں بروگن ہیں۔ زندگی ازل سے خواہش کے تعاقب میں ہے اور خواہش کو جا لینا اس کے مقدر میںنہیں یہ جہت فلسفہ تقدیر سے بھی گہرا انسلاک رکھتی ہے۔
”وہ جس نے
کتابوں کے دکھ
اپنے سینے میں روشن کیے تھے
او رآنکھوں کے پانی سے
اک روشنائی بنا کر
چمکتے ہوئے حرف لکھتا تھا
کہنے لگا
’’اک بھکارن تھی وہ
بس اسے زندگی کی دعائیں وہ دیتی
جو اپنی کھنکتی ہوئی عمر کی نقرئی ریزگاری
سدا اس کے کشکول میں ڈالتا تھا‘‘
اس بند کی پہلی جہت زندگی کے پیراڈاکس (Paradox)کی خوب صورت شعری اور فلسفیانہ شرح بنتی ہے۔ زندگی اپنے وجود کی بقا کے لیے جس وظیفے میںمصروف ہوتی ہے وہی اس کی فنا کا باعث ہوتا ہے۔ دراصل زندگی اس وظیفے میں خود کو رفتہ رفتہ اور جستہ جستہ وقت کے عظیم کشکول میں ڈالتی رہتی ہے اور اس fallacyکا شکار رہتی ہے کہ وقت کی بھکارن یعنی فنا اسے زندگی کی دعائیں دے کر امر کر دے گی۔ یہ وقت کے جبر کا وہ پہلو ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ امید کے باطن میں پوشیدہ خواہش کی کبھی تکمیل نہیں ہوتی اور بالفرض ہو بھی جائے تو بالآخر فنا ہی اس کا مقدر ہے۔ دوسری جانب سے اس بندمیں ہوا تخلیق کی علامت بنی ہے۔ ہوا ایک ایسی بھکارن ہے جو تخلیق کار کی آنکھ سے بنی روشنائی سے لکھے حروف مانگتی ہے۔ ایک ایسے الاؤ کی روشنی مانگتی ہے جس میں تخلیق کار کو اپنا وجود ،اپنی ذات اور اپنی خواہش جھونکنا پڑتی ہے اور کھنکتی عمر کے سکے کے بدلے میں دعا ملنے سے مراد ایسی سچوایشن ہے جہاںکمال فن کا درجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری عمر فن کی نذر کرنا پڑتی ہے۔ اگر اس بند کو نظم کے افقی پہلو سے جانچا جائے تو تیسری جہت نمودار ہوتی ہے جو نظم کے مرکزی موضوع کو Logically Justifyکرتی ہے۔ اور اس سانحے پر Intelligentsiaکے ردعمل کو ظاہر کرتی ہے۔ بڑے انقلابات اور عظیم مقاصد ہمیشہ خراج وصول کرتے ہیں جو بعض اوقات قیمتی جانوں کے نذرانے کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ نظم کے اس مقام پر دکھ کو مثبت انداز میں Liquidizeکیا گیا ہے۔
’’ہوا مر گئی!‘‘
بستر مرگ پر کھانستے کھانستے
ایک بوڑھے نے اپنی بہو سے کہا
’’وہ جو گن ،سپیرن!
نچاتی رہی بین کی تیز لے پر مجھے
زندگی بھر وہ ڈستی رہی کالی ناگن!‘‘
یہ بند حیرت آمیز لہجے میں پوچھے گئے ایک سوال سے شروع ہوتا ہے جو بستر مرگ پر کھانستے کھانستے ایک بوڑھا اپنی بہو سے کرتاہے ایک طرف تو یہاں ہوا دکھ بھری زندگی کی علامت بنی ہے جو بوڑھے کو تمام عمر بین کی لے پر نچاتی رہی۔ یعنی زندگی گزارنے کے لیے اسے شدید محنت اور جدوجہد کرنا پڑی۔ یہ مشقت اس قدر تھکا دینے والی تھی کہ زندگی بوڑھے کے لیے کسی مثبت اور مسرت بھرے تجربے کا باعث نہ بن سکی اور کھانسی کا دورہ پڑنے پر زندگی کے ختم ہو جانے پر پریشان ہونے کی بہ جائے حیرت زدہ ہے کہ اگر واقعی وہ ظالم سپیرن مر گئی ہے تو مجھے زندگی کے کرب سے نجات کیوں نہیں مل رہی۔ وہ گزری ہوئی زندگی کے لیے کالی ناگن جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ یہاں بیمار بوڑھے کے حوالے سے ہوا غربت ،پرانی تپ دق یا پھر اس کی ناخوش گوار ازدواجی زندگی بھی ہوسکتی ہے۔ کوئی ایسا گہرا دکھ ہے جس کا خاتمہ بوڑھے کے لیے ناقابل یقین بھی ہے اور حیرت آمیز بھی۔ دوسری جہت اس بوڑھے کی ہاری ہوئی امید ہے جو معاشی خوش حالی، رواداری اور انسانی مساوات سے جڑی ہوئی تھی جو کسی سپیرن کی طرح بین بجا بجا کر پوری نسل کو ایک نشاط انگیز کیفیت سے دو چار کرتی رہی مگر کبھی اس کا مثبت روپ دیکھنے کو نہ ملا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بند کی آخری لائن میں باطنی وجد اور نشاط امید کو کالی ناگن قرار دیا گیا ہے۔ جس کا ڈسا ہوا زندگی کے ہر روپ سے نفرت کرنا شروع کر دیتا ہے۔
’’ہوا کون تھی؟‘‘
مسجدوں،پارکوں ،ہوٹلوں ،کارخانو ں ،گھروں میں
یہی بحث تھی
ہوا مہرباں، خوب صورت۔۔۔
ہوا شہر بھر کی ضرورت۔۔۔!
ہوا زہر تھی ،بستیوں کے لیے قہر تھی!
ہوا داشتہ ،فاحشہ، بد چلن ،نائیکہ۔۔۔!
نہیں وہ فرشتہ ،وہ مریم ،وہ سیتا ۔۔۔!
اس بند میں ’’ہوا‘‘ آئیڈیل ‘ زندگی ‘ امید اور خواہش کے علامتی پیکروں میں نظم کے سیاق و سباق کے ساتھ انسلاک قائم رکھتے ہوئے ان علامتوں کی جملہ مثبت اور منفی خصوصیات کا منظرنامہ بناتی ہے اور ان کے فلسفیانہ تضادات کو دریافت کرتے ہوئے Paradoxicalنتائج اخذ کرتی ہے۔
علی محمد فرشی اپنی نظموں میں Messageکی بہ جائے Meaningsکی ترسیل پر یقین رکھتا ہے اوریہی اس کا نظریہ فن ہے۔ وہ اپنے Subjectکے ممکنہ Shadesدکھانے کے لیے رنگوں کا استعمال ایسے طریقے سے کرتا ہے کہ وہ معروف اور مروج ہونے کے باوجود نیا اور انوکھا تاثر ترتیب دیتے ہیں۔ اس نظم میں بھی اس نے مرکزی موضوع کے علاوہ دیگر ضمنی موضوعات ایسے فنکارانہ شعور اور مہارت کے ساتھ پینٹ کیے ہیں کہ ہماری بصارت بار بار التباس کا شکار ہو جاتی ہے اور جب تک ہم Creative frameپر اپنی مکمل توجہ مرکوز نہ رکھیں او رنیو کلیئس کو نظرکا محور نہ بنائیں تو بار بار ضمنی موضوعات کی طرف توجہ بٹ جاتی ہے۔ تاہم یہ ضمنی تصاویر بھی اتنی دل کش ہیں کہ جو تصویر بھی ہم دریافت کرپاتے ہیں اسی کے حصار میں گم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس منظر کے اندر یا اس سے منسلک ایک اور منظر بننے لگتا ہے یہ کرشمہ سازی لفظ کے سمبالک استعمال کی بدولت ہی ممکن ہوئی ہے اور یہی علی محمد فرشی کی انفرادی شناخت بنتی ہے۔
”سمند رکی چھاتی سے چپکی ہوئی کشتیوں
اور درختوں کی شاخوں سے لپٹے پرندوں نے پوچھا
’’ہوا کون تھی؟‘‘
سمندر، درخت ،آسماں سارے خاموش تھے
اور زمیں رو رہی تھی!
زمیں رو رہی تھی!!“
یہ بند اس نظم کے مرکزی دکھ کا کائناتی منظر نامہ ہے جس میں انسان کے علاوہ ماحول اور گرد و پیش سب متاثر ہوئے ہیں۔ درخت، آسمان اور سمندر جو اس سانحے کے عینی شاہد ہیں شدت کرب سے خاموش اور گنگ ہیں۔ مگر زمین اس لیے رو رہی ہے کہ وہ ایک منفرد زمین زاد سے محروم ہو گئی ہے۔ یہاں آسمان مقدرات اور سمندر تاریخ کی علامت بنے ہیں۔ دوسری جہت ہوا کی اپنی طبعی خصوصیات سے نکلتی ہے۔ ہوا جو زندگی ،ہر یالی او ر شادابی کی ضامن ہے۔ آلودگی کے مضر اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ہوا جو پرندوں کی چہچہاہٹ اور بادبانی کشتیوں کے لیے سمت نما ہے ،درختوں او رماحولیات کے لیے جس کا وجود از حد ضروری ہے ،اوزون کے غلاف میں شگاف ہو جانے کی وجہ سے آنے والی زمینی تباہی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ یہ اس صورت حال کی پیش بینی ہے جب جدید سائنسی و صنعتی ارتقا کے منفی اثرات اس کرہ ارض کو اس تباہی کا شکار کر دیں گے جس کی بہ دولت اس کرے پر زندگی کا وجود مشکل امر بن کر رہ جائے گا۔
’’ہوا مر گئی ہے‘‘ ان نظموں میں سے ایک نظم ہے جس میں اپنے عصری مسائل کو علامتی سطح پر اس طرح اٹھایا گیا کہ فن کی سطح اپنے اصل مقام سے نیچے نہ گرے۔ اس نظم میں کہیں بھی نعرے کی گونج نہیں بس دکھ کا ایک گہرا احساس ہے جو رگ و پے میں سما جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ نظم جمالیاتی اور حسیاتی سطح پر بھی قارئین کے ذوق کی تسکین کا باعث بنتی ہے۔ بلاشبہ اس نظم کا شمار رجحان ساز نظموں میں کیا جا سکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ:’’علی محمد فرشی کی نظم ’ہوا مر گئی ہے‘کا تجزیاتی مطالعہ‘‘،’ماہ نامہ ’کاغذی پیرہن‘، لاہور،جولائی؍اگست۲۰۰۱ ء، ص۳۴-۳۷
حوالہ نظم: مشمولہ ’’تیزہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!