کا تجزیاتی مطالعہ Cyberia علی محمد فرشی کی نظم
ظفر سید
یورپ کے نشاۃ الثانیہ کی ابتدا اور اس کے دوران میں سائنس اور دیگر عقلی علوم میں نمایاں ترقی کی بنا پر یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ شاید انسان ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر خارجی طور پر ایک ایسی مثالی سوسائٹی قائم کرنے میں کام یاب ہو جائے جس میں اس کا یوٹوپیا کا صدیوں پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔ وہ خواب جو گل گامش کی مٹی کی تختیوں پر لکھی گئی چار ہزار سالہ پرانی داستان میں جنت کے تصور سے لے کر عہد نامہ قدیم کے ’’جب شیر اوربچھڑا ساتھ ساتھ بیٹھے ہوں گے‘‘ اور افلا طون کی ’’جمہوریہ‘‘ سے سرٹامس مور کی مشہور کتاب ’’یوٹوپیا‘‘ اور دوسری ایسی سینکڑوں کتابوں میں انسان کی بیسیوں نسلیں دیکھتی آئی تھیں۔
مندرجہ بالا فقرے میں ’’خارجی طور پر ‘‘ میں نے اس لیے کہا کہ بہ ظاہر یہ تسلیم کیا جانے لگا تھا کہ انسان فطرتاً مفسد، خود غرض اور لالچی واقع ہوا ہے اور تاریخ گواہی دیتی تھی کہ داخلی طور اس کو سدھارنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی ہیں۔ اب اگر ٹیکنالوجی انسان کی ضرورت سے زیادہ خوراک، لباس، رہائش اور زندگی کی دوسری آسائشیں مہیا کردے تو شاید انسان اپنی دنیا کو سدھارنے میں کام یاب ہو سکے۔ خیال تھا کہ ایسے معاشرے میں ایک انسان کے پاس دوسرے انسان سے لڑنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی اور نتیجتاً جنگ اور فساد کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن بیسویں صدی کے آتے آتے ایسا لگتا ہے کہ انسان کے سارے آدرش دھڑام سے زمین پر آ رہے، سارے سہانے خواب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے۔ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال نے ادب میں ایک نئی صنف کو جنم دیا، یعنی ڈس ٹوپیا (dystopia) یا منفی یوٹوپیا۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں اور خاص طور پر ایٹم بم کی ایجاد اور استعمال نے تو گویا اس امر پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ سائنس بھی دراصل انسان کے استحصال کا ایک اورآلہ ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی میں بے تحاشا ڈس ٹوپیا لکھے گئے۔ ایسے تمام ڈسٹوپیاؤں میں (جن میں زیماٹن کا We ، آلڈس ہکسلی کا Brave New World، جارج اوروِل کا 1984 اور سکنر کا Walden two وغیرہ شامل ہیں) مستقبل کی ایک نہایت تاریک تصویر پیش کی گئی ہے جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر انسان کو اس کی بنیادی شناختوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب امر ہے کہ جب انسان کے پاس وسائل نہیں تھے تو وہ ایک مثالی دنیا کے خواب دیکھتا تھا، لیکن جب ایسی دنیا معرضِ وجود میں لانے کے اسباب مہیا ہو گئے تو انسان کی تمام امیدیں دم توڑتی چلی گئیں۔
اس طویل، لیکن غالباً ضروری، جملۂ معترضہ کے بعد ہم علی محمد فرشی کی نظم کی طرف توجہ کرتے ہیں، جو میری رائے میں اردو ادب کا پہلا ِڈس ٹوپیا ہے۔ نظم کا عنوان دو انگریزی مادوں، یعنی سائبر اور ایریا کے ادغام سے وضع کیا گیا ہے، جس سے ذہن کمپیوٹر کی دنیا کی طرف مائل ہوتاہے۔ لیکن لفظ سائبیریا کی صوتیات ہمیں روس کے صوبے کی طرف بھی متوجہ کرتی ہیں۔
نظم میں مونتاژ کی تکنیک سے کام لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کئی مناظر بیان کیے گئے ہیں جو ہمیں اس سائبیریا کے بارے میںمعلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ مستقبل بعید کا ایک ایسا زمانہ ہے جس میں انسان غالباً مکمل طور پر کمپیوٹر سے ہم کنار ہو چکا ہے۔ انسان اور کمپیوٹر کی یکجائی اور یکجانی کے بارے میں بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں ایسا ممکن ہے کہ انسان کے جسمانی دماغ (brain) کو کمپیوٹر سے منسلک کرکے شعوری دماغ (mind) کو ہارڈ ڈسک پر اتار (download (لیا جائے۔ اگر انھی خطوط پر سوچتے ہوئے آگے بڑھا جائے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے دماغ انٹرنیٹ کی وساطت سے ساری دنیا میں جاری وساری ہو جائیں گے اور ا یک cyber-community وجود میں آ جائے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ’’سائبیریا‘‘ کے انسان بھی اسی طرح کی کسی کمیونٹی میں ’’بس‘‘ رہے ہیں جہاں وہ ’’جسم‘‘ او ر اس کے متعلقات سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں۔ نظم کے بند ۲ تا ۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں جنس سے حظ حاصل کرنے کا تصو ربھی فنا ہو چکا ہے اور جہاں عورت کی خوش بو ’’بغلوں‘‘ میں چھڑک کر کام چلایا جاتاہے۔ جہاں کھانے پینے کا تصور بھی ناپید ہوچکا ہے اور لوگ اپنے اپنے کیمروں میں کھانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ جہاں ہنسی ، بچپن، معصومیت، بچے، سبھی عجائب گھروں کی زینت بن چکے ہیں۔ اس عہد میں مقدر، دعا اور محبت جیسے جذبے بھی موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں۔ تاہم چھٹے بند سے نظم ایک اور کروٹ لیتی ہے:
بہت رش تھا
تاریخ کے کاؤنٹر پر
جہاں سے ا نہیں اپنے ہونے کا
احساس لینے کی جلدی تھی
اس بند میں ’’ہونے کا احساس‘‘ کا ٹکڑا بہت قابل غور ہے۔ بیسویں صدی کے اکثر ڈس ٹوپیاؤں میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ان استحصالی معاشروں میں انسان سے اس کی بنیادی شناخت، یعنی اس کا نام چھین کر اسے ایک غیر انسانی اور مشینی سطح پر گرا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر 1984 اور We میں انسان کو ناموں سے نہیں بلکہ نمبروں سے پہچانا جاتا ہے۔ چنانچہ We کے متکلم کا کوئی انسانی نام نہیں بل کہ اس کی شناخت D-503 ہے۔ اسی طرح 1984 کے ہیرو کا نام Winston W 6079 ہے۔ یہاں نام کا ایک جز تو برقرار ہے لیکن کسی بھی معمولی جرم کی پاداش میں اس ناول کے کرداروں کو مکمل طور پر فنا کر دیا جاتا ہے، ان کی پیدائش کا سر ٹیفکیٹ، سکول کے ریکارڈ، ملازمت کے ریکارڈ وغیرہ نیست و نابود کر دیے جاتے ہیں گویا وہ شخص کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ ناول کی زبان میں اس طریقے سے کسی شخص person))کو لا شخص (unperson) بنا دیا جاتا ہے۔ علی محمد فرشی کی نظم میں اس سے بھی ایک درجہ آگے کی صورتِ حال ملتی ہے جب شناحت تو کجا، ہونے کا احساس بھی ڈانوا ڈول ہونے لگتاہے ، اور وہ مخلوق تاریخ کے کاؤنٹر پر جا کر اپنے تئیں ہونے کا احساس بہم پہنچاتی ہے۔
یہاں سے ہم نظم کے ابتدائی بند کی جانب مراجعت کرتے ہیں:
میرے پھولوں پہ
قیمت کی چٹ دیکھ کر
رک گیا آسماں
یہاں دو بلیغ علامات ملتی ہیں، پھول اور آسماں، پھول انتہائی وسیع علامت ہے اور اس بند کے سیاق و سباق میں اسے افلاطون کے یوٹوپیا ’’جمہوریہ‘‘ میں استعمال کیے جانے والی اصطلاح ’’موسیقی‘‘ کا ہم معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ افلاطون موسیقی سے مراد تمام فنونِ لطیفہ، یعنی مصوری، سنگتراشی، ادب، موسیقی، وغیرہ لیتا ہے۔ ’’سائبیریا‘‘ میں ’’پھول ـ‘‘ ان فنون کے علاوہ معصومیت، حسن، دیگر اعلیٰ اقدار کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ضمیرِ اضافی ’’میری ‘‘ بھی بہت معنویت کی حامل ہے۔ یہ پوری انسانیت کی نمائندہ بھی ہو سکتی ہے اور اسے خالق کے معنوں میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ جب تمام لطیف و ارفع جذبے، آدرش اور خوب صورتیاں بکاؤ مال بن جاتی ہیں تو آسماں بھی اپنی گردش چھوڑ کر ساکت و جامد ہو جاتا ہے۔ یہاں نظم اپنا رشتہ کلاسیکی سبک ہندی شعریات سے بھی جوڑ لیتی ہے جہاں آسمان کو گردش کرتا ہوا اور تقدیر کا نمائندہ بھی متصور کیا جاتا ہے۔ جیسے میرؔ کے اس مشہور شعر میں ہے
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
نظم کے آخری بند میں ایک عجائب گھر کے اندر ’’حیرت کے سیکشن‘‘ کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس سیکشن میں حیرت انگیز چیزیں رکھی جاتی ہوں گی جو اس مخلوق کو متحیر کر دیتی ہوں گی۔ لیکن اس سیکشن میں خدا، آدمی، زندگی اور موت موجود نہیں تھے۔ یاد رہے کہ انسانی فلسفہ ہزاروں سالوں سے جو بنیادی سوال اٹھاتا چلا آیا ہے وہ یہی ہیں کہ خدا کیا ہے اور کیسا ہے اور آیا ہے بھی یا نہیں، انسان کا کائنات میں کیا مقام ہے۔ اسی طرح زندگی اور موت بھی بنیادی سوالات میں شامل ہیں جو ہمیشہ سے انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن ’’سائبیریا‘‘ کے جہان میں یہ سوال اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور اب کوئی ان میں دل چسپی نہیں لیتا۔ جہاں تک خدا کا سوال ہے تو ’’سائبیریا‘‘ کے باشندے یا تو خدا کا معما حل کر چکے ہیں یا پھر شدید بحث و تمحیص کے بعد مایوس ہو کر اس پر غور کرنا ہی ترک کر چکے ہیں۔ وہ لوگ غالباً زندگی اور موت کی گتھی بھی سلجھا چکے ہیں کیوں کہ انٹرنیٹ کو تو موت نہیں ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ انٹرنیٹ کا منصوبہ امریکی فوج کے سائنس دانوں نے تیار کیا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر روس کے ساتھ ایٹمی جنگ چھڑ جائے توانٹرنیٹ کے ذریعے ، جس کا کوئی واحد مرکز نہیں اس لیے اسے بم باری سے تباہ نہیں کیا جا سکتا، قیمتی معلومات کو محفوظ رکھا جا سکے۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام بنیادی سوالات اور تعجب خیز باتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ایک طرح کی موت ہے۔ گویا زندگی مستقل جستجو اور تلاش کا نام ہے۔ انسان کی تمام تر مادی و روحانی ترقی دراصل حیرت کا سفر ہے۔ حیرت و جستجو کے خاتمے کو موت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
نظم کی طرح نظم کا عنوان بھی معنویت سے بھرپور ہے۔ ’’سائبیریا‘‘ روس کا مشہور برف زار ہے جہاں سٹالن کے دور میں حکومت کے باغیوں کو جبری مشقت کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ نظم کی دنیا بھی ایسی ہی سرد او ربے رحم اور زندگی کی گرم جوشی سے عاری ہے۔
’’سائبیریا‘‘ بالکل نئے ذائقے کی نظم ہے جو قاری کو اپنے ساتھ لے کر انتہائی دور دراز کی دنیا کی سیر کراتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو بہ ظاہر تو دور دراز اور دوراز کار نظر آتی ہے لیکن جس کی طرف آج کا عاقبت نا اندیش اور ماضی سے سبق نہ سیکھنے والا انسان بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ: زیف سید، علی محمد فرشی کی نظم ’’CYBERIA ‘‘تجزیاتی مطالعہ ‘‘،’ آفاق‘، راولپنڈی،شمارہ (۴ )،جنوری ۲۰۰۳ء ص۱۷۳-۱۷۶
حوالہ نظم:مشمولہ ’’ زندگی خودکشی کا مقدمہ نہیں‘‘
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!