علی محمد فرشی کی نظم ’’گے بی‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر یٰسین آفاقی
ڈاکٹر یٰسین آفاقی
علی محمد فرشی کی نظم ’’گے بی‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
علی محمد فرشی جدید لہجے کے شاعر ہیں۔ تخلیقی تجربے کی جدت ، وسعت اور پیچیدگی اور اُسلوب کے نئے پن کی بنا پران کی نظمیں نئی اُردو نظم میں انفرادیت کی حامل ہیں۔ زیرِ تجزیہ نظم کا نام نیا اور چونکا دینے والا ہے۔علی محمد فرشی کے شعری مجموعہ ’’زندگی خودکشی کا مقدمہ نہیں‘‘ کے بعد اُن کی تقریباً ہر نظم مختلف اُسلوب میں تخلیق ہوئی ہے۔ جس شاعر کی ہر نظم مختلف اسلوب میں تخلیق ہو ، اس کی شاعری کے نمو پانے اور پھلنے پھولنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ’’گے بی‘‘ میں علی محمد فرشی نے گے کلچر کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے جو امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ گے کلچر میں زندگی ہمہ تن روایت نہیںبلکہ ہمہ تن تجربہ ہے۔ زندگی کا ماضی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ حال ماضی کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کلچر کے افراد اپنے آپ کو انتخاب کے ذریعے خود جنم دیتے ہیں۔ اگرچہ اس انتخاب کے پس منظر میں مختلف سماجی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی ، ثقافتی اور تہذیبی عوامل کارفرما ہو تے ہیں۔ نظم کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ گے معاشروں میں زندگی کے بارے میں دیو مالائی تصورات کا انہدام ہو چکا ہے اور اِسی لیے نظم میں معاشرتی اور ثقافتی رشتوں کا ادراک نئے زاویے سے کیا گیا ہے۔ شاعر نے بے بی کی تخلیق کے نئے طریقِ کار سے پردہ اُٹھاتے ہوئے اِس بات کو نشان زد کیا ہے کہ کلچر بدل جانے سے زندگی کے مطالب بدل جاتے ہیں۔ گے کلچر میں زندگی کو کُلیت میں ظاہر کرنے کے لیے لفظیات کو وسیع تر لسانی تناظر میں استعمال کیا گیا ہے۔ گے بی کی افزودگی کو تاریخی ، تہذیبی اور اساطیری حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظم کی قرأت بتاتی ہے کہ شاعر نے نا آفریدہ تخلیقی جہان کی دریافت کی ہے۔ نظم کے تار و پود میں مابعد جدید زندگی کا شعور جھلکتا ہے اور گے کلچر کے مرد و زن کے افعال و اعمال کے حوالے سے شاعر کے داخلی کرب کا سراغ بھی ملتا ہے۔ مغربی معاشروں میں صارفیت کے کلچر نے انسانی زندگی کے جبلّی اور جذباتی تقاضوں کو جس طرح روند کر رکھ دیا ہے، یہ بات غور طلب ہے۔
اُردو پڑھنے والوں کو گے کلچر سے شناسائی تو پہلے ہی سے ہے لیکن ’’گے بی‘‘ میں علی محمد فرشی نے گے کلچر کو جس انداز سے نظم میں ڈھالا ہے اس سے یہ نظم اپنی پہلی قرأت میں نامانوس لگتی ہے ۔ نظم کی دوسری قرأت سے یہ آگاہی ہوتی ہے کہ شاعر نے گے کلچر کے باطن میں اُتر کر اس کلچر کے مرد و زن کی دنیا کو محسوس کیا ہے۔ نظم کے اجزائے ترکیبی سے شاعر کا احساس جذبہ ، فکر اور تخیل ایک قوت کے ساتھ آشکار ہوتے ہیں۔ ابتدائی لائنوں میں نظم اس طرح کھُلتی ہے:
زندگی متھ نہیں
جو پرانے معانی کی
میّا سے لپٹی رہے !
جیسے ہی نظم کا آغاز ہوتا ہے، اِک گہرا جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔ قاری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ زندگی کیا ہے، متھ کیا ہے، معنٰی کیا ہے، یہ کیسے پیدا ہوتا ہے، پرانے اور نئے معنٰی میں کیا فرق ہے اور اقدار اور معانی کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟
مذہب کی رُو سے یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی ہے کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ متھ میں بھی انسان کی پیدائش کے متعلق جو تصورات ملتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی مافوق الفطرت ہستی کے وجود ہی سے جُڑے ہوئے ہیںجب شاعر یہ کہتا ہے:
زندگی متھ نہیں
تو دیومالائی تناظر میں اس کا دائرۂ کار وسیع تر ہو جاتا ہے۔ متھ اور بالخصوص مذہبی روایات میں تخلیقِ آدم کا جو تصور ملتا ہے، گے بی کلچر کے سیاق و سباق میں اس کی نفی کر کے، انسانی تخلیق کے نئے تصور کی عکاسی کی گئی ہے۔ جس میں گے معاشروں کے افراد اپنی ذات کے انعکاس کے لیے نئی متھ تشکیل دے رہے ہیں،جس میں
خدا ، آدمی، باپ اور ماں
کی متھ کے معانی کی میّا نہیں ہے!
نظم کی ابتدائی لائنوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ دیو مالا میں زندگی کی تخلیق کا جو تصور موجود ہے، وہ گے معاشروں میں قائم نہیں رہ سکا۔ مغرب کے وہ ممالک اور معاشرے جہاں آزاد جنسی تعلقات کی ممانعت نہیں، ہر نوع کی جنسی آزادی ہے، وہاں گے افراد کے نزدیک اساطیر میں زندگی کے تصورات کی جو دنیاموجود ہے، وہ کہنہ ہو چکی ہے اور زندگی اس کہنگی سے جان چھڑا کر نئے معیارات و تصورات کی تلاش میں تجربے کی زد پر ہے۔
مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں زندگی کا اپنی بقا کے نئے امکانات کی تلاش کے لیے مسلسل آگے بڑھتے رہنا، اس کی فطرت ہے۔ اس آگے بڑھنے کے عمل میں یہ ثقافتی و تہذیبی کروٹوں کو اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے۔ گے کلچر میں زندگی طرزِ عمل کا استعارہ بدل کر جن معانی کو تلاش کر رہی ہے، یہ زندگی کے اساطیری تصور کی عدم پیروی میں ذات کی نئی سفلگی کے سوا کچھ اور نہیں۔ شاعر زندگی کے اِن نئے معانی کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ اُس کے نزدیک یہ غیر انسانی کلچر کی سعی ِنامشکور ہے۔ نظم میں اس صورت حال پر گہرے دکھ اور تأسف کے ساتھ طنز موجود ہے۔
اگرچہ دیو مالا میں زندگی کی تخلیق کا تصور پرانا ہے لیکن اس میں صداقت کا عنصر موجود ہے۔ اور اس عنصر کی توسیع ہی شاعر کا مقصود ہے۔ شاعر تناظر میں خدا ، آدمی ، باپ اور ماں کی متھ کو نیا مفہوم عطا کرے۔
کہا گیا ہے کہ معانی کسی معاشرے میں ثقافتی معیارات اور اندازِ حیات سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے زندگی بدلتے معاشروں میں نئے نئے معانی و مفاہیم سے آشنا ہوتی رہتی ہے۔ اسے کسی ایک شے یا معروض پر قانع ہو جانا نہیں آتا ۔ نظم کی ابتدائی لائنوں میں شاعر نے متھ کے مفروضہ حقائق اور زندگی کی حرکیات کا فرق بھی آئینہ کر دیا ہے کہ متھ اپنے حقائق کی دنیا کو ازسرِ نو خلق نہیں کر سکتی، جب کہ زندگی اپنے کُلی انعکاس کے لیے حقائق اور واقعات کو تخلیق کرتی رہتی ہے۔ جب تک کرۂ ارض پر زندگی کا وجود ہے، انسانی جبلّتیں باقی رہیں گی اور یہ مختلف زمانوں اور زمینوں میں اپنی تعمیر و تشکیل کے انداز بدلتی رہے گی۔
گے کلچر جس طرزِ احساس اور اندازِ فکر کا زائیدہ ہے، اس میں مرد و زن انسانی جبلتوں کی راست تفہیم سے نا آشنا اور بے بی کی تخلیق سے گریزاں ہیں۔ اس کج فہمی نے انھیں جس صورت احوال سے دو چار کر دیا ہے ، اس سے زندگی میں موجود خلا پر نہیں ہوتا ۔ لیکن اس خلا کو پر کرنے کی سعی میں وہ جس طرزِ عمل کو اختیار کرتے ہیں، یہ مابعد جدید مغربی معاشروں کی مختلف سماجی ، معاشرتی سیاسی اور ثقافتی جہات کو ظاہر کرتا ہے۔
نظم کا کرداری مطالعہ گے کلچر کی مختلف سطحوں کو نمایاں کرتا ہے۔ شاعر نے کرداروں کی نفسیات کو ان کی ذات کی اندرونی تہوں میں سے کھوج نکالا ہے۔ نظم میں چار تانیثی کردار ہیں۔ دو لزبین لڑکیاں ، ایک ایگ فروش لڑکی اور ایک میزبان عورت جو گے بی کی ماں ہے اور جسے شاعر نے کرائے کی عورت کہا ہے۔ جب کہ نظم میں ایک مرد انہ کردار رونما ہوا ہے جسے اپنی خوب صورتی اور انفرادیت کا گہرا احساس ہے۔
زندگی گزارنے کے عمل میں لزبین لڑکیوں کے اندر بے بی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ وہ ایک لڑکی سے تین ملین میں ایگ کا سودا کرتی ہیں اور اس سے دو گنی قیمت میں ایک مشرقی نوجوان سے سپرم خریدتی ہیں۔ شاعر نے اس خوب رُو نوجوان کو بلڈی اور لالچی کَہ کر مشرق کے مفلوک الحال اور غربت زدہ معاشروں کی دولت کے لیے ہوس اور ان کے اخلاقی و روحانی زوال کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے ایک تو یہ آشکار ہوتا ہے کہ گے معاشروں میں جنس بذاتہٖ توجہ کا مرکز نہیں بلکہ دولت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ دوسرے یہ عقدہ بھی وا ہوتا ہے کہ ہم جنسیت کی راہ پر چلتے ہوئے جب گے گرلز کے اندر بے بی کی خواہش سر اُٹھاتی ہے تو ان کی ذات کے تہ خانے سے ایک مردِرعنا کا پیکر ابھرتا ہے جو ان کے گے بی کا باپ ہو۔ اس سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ اگرچہ گے لڑکیاں ماں بننے کے عمل سے گریزاں ہیں لیکن ان کی جبلت اور نفسیاتی بافت میں ایک خوب صورت مرد کے وصال کا لمس موجود ہے جو مختلف وجوہ کی بنا پر دب گیا ہے اور جس کے پسِ شعور چلے جانے سے لزبیئن لڑکیوں کی اپنی ذات کے کچھ پہلو بھی عدم تکمیل کا شکار ہیں۔
اس مقام پر مشرقی مرد کے انتخاب کے پس منظر میں کارفرما عوامل کا سراغ بھی لگا یا جا سکتا ہے۔ پہلی نظر میں یورپ میں آزادیٔ نسواں کی تحریک کی طرف دھیان جاتا ہے جس کے اسباب و نتائج کی روشنی میں مشرقی مرد کے انتخاب کی کچھ وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ مغرب میں نسائیت کی تحریک نے نسوانیت ِ زن کا قلع قمع کر دیا تھا، جس کا نتیجہ مرگِ امومت کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اب مغرب میں نسائیت کا ایک سبب یہ ہے کہ مرد جنسی لحاظ سے ٹھُس ہو رہا ہے۔ عورت جنسی شعلگی کی عدم سیرابی کی وجہ سے مرد سے بیگانہ ہو رہی ہے۔ اس لیے زیرِ نظر نظم میں شاعر نے لزبین لڑکیوںکو سپرم کی خریداری کے لیے مشرقی مرد کی طرف راغب ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔ جس کی کالی آنکھوں کے عقب میں انھوں نے اس کے بدن کی ہر سلوٹ کو دیکھ لیا ہے۔ وہ آئیڈیل بن کر ان کے احساسات میںرنگ بھرتا ہے ۔ ان کے اندر جوش و خروش اور ولولہ پیدا کرتا ہے اور وہ ایک طرح سے اس پر عاشق ہو جاتی ہیں۔
مشرقی مرد کے انتخاب کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک میں گے گرلز کی خوب صورتی کا معیاربدل رہا ہے ۔ انھیں مشرقی نوجوانوں سے دل چسپی پیدا ہو رہی ہے۔ نظم میں مشرقی نوجوان کی کالی آنکھوں کا اعجاز گے گرلز کے لیے متاثراتی قوت بن کر ظاہر ہوا ہے۔ یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ مشرقی نوجوان کی سیاہ آنکھیں ظاہری حسن و جمال کا استعارہ ہی نہیں بلکہ مشرق کی اسراریت کی علامت بھی ہیں۔
نظم میں جنسی لحاظ سے مشرق کا مغرب پر غالب آنا دکھایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گے بیز میں مشرقی اوصاف پیدا ہو جائیں گے۔ کیا اس طرح سے بین ا لاقوامی سطح پر انسانی کلچر کے منقلب ہونے کی کوئی صورت نکل سکے گی، نیز گے بیز کے اجتماع سے لزبائی کلچر کیا رنگ اختیار کرے گا۔ کیا یہ گے کلچر میں ضم ہو جائے گایا اپنی جداگانہ شناخت قائم کرے گا؟ تاہم نظم کی داخلی ہیئت اس تہذیبی کروٹ کی نشان دہی کرتی ہے کہ بالآخر مغرب مشرق کی طرف رجوع کرے گا۔ بے منّتِ مشرق اس کا تخلیقی وجود “waste land”بنا رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ بے بی کے حصول کی خواہش جو لزبیئن لڑکیوں کے باطن میں مسخ شدہ صورت میں نمایاں ہوئی ہے، کیا حقیقی صورت میں بھی ان کو ماں بننے کے عمل کی طرف راغب کر سکتی ہے، ماں کی طرح نشوونما کرنے کی آرزو تو ان کے اندر امڈ آئی ہے جیسا کہ نظم میں بتایا گیا ہے:
اسے اپنی ’ما+ما ‘ نے
اک اور لڑکی کے ایگ سے لیا
نظم کے تخلیقی فریم سے یہ بھی مترشّح ہوتا ہے کہ لزبیئن لڑکیاں اپنے اندر کے خلا کو بھرنے کے لیے بے بی کو از خود تو جنم نہ دے سکیں لیکن اس کو اپنی زندگیوں کے ساتھ نتھی کرنے کی آرزو تو بہ ہرحال ان کے اندر موجود ہے۔ اس لیے شاعر نے طنزاً ’’گے بی‘‘ کو نئے معانی کی آفرینش قرار دیا ہے۔
نظم کی قرأت سے یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ’’گے بی‘‘ کی sexکیا ہے؟ لیکن شاعر نے گے گرلز کے طرزِ حیات اور سیکس سے ان کی عدم دل چسپی کی بنا پر گے بی کی سیکس کو پوشیدہ رکھا ہے اور اسے لزبائی کلچر کی بے بی کہا ہے۔ جس سے اس کاhe یاshe ہو نا واضح نہیں ہوتا۔
شاعر نے اُس مغربی عورت کے خد و خال کو بھی اخفا میں رکھا ہے جس سے گے گرلز نے ایگ خریدا ہے۔ ایگ فروش عورت کے خد و خال کو ظاہر کرنا اِس لیے ضروری نہیں سمجھا گیاکہ شاعر کا مقصد لزبیئن لڑکیوں کے حوالے سے مرد اور عورت کی ایک دوسرے کے لیے پُر اسرار دائمی کشش اور ضرورت کو ظاہر کرنا ہے۔
ایگ اور سپرم کی قیمتوں کے تناسب کے پیشِ نظر میزبان عورت کی اجرت جو نو لاکھ ہے، بہت معمولی اور حقیر دکھائی دیتی ہے۔ نظم اس مقام پر ایک مرتبہ پھر اپنی داخلی ساخت سے طنز کو ابھارتی ہے:
میزباں
(اُس کی ماں ، اک کرائے کی عورت) نے
نو مہ کے نولاکھ مانگے
ادا کر دیے
اس سے شاعر نے کارکن طبقے کے حوالے سے مغربی معاشروں میں استحصالی رویوں کا اظہار کیا ہے کہ اس کلچر میں بھی کارکن طبقے کو زندگی گزارنے کے مساوی مواقع میسر نہیں ہیں۔ یہ معاشرہ بھی استحصالی اور طبقاتی ہے۔
علاوہ ازیں اِن مصرعوں کا صوتی بہاؤ ایک طرف تو ’’میزبان‘‘ کی سادہ لوحی کی طرف لزبیئن لڑکیوں کے غیر منصفانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے اور دوسرے شاعر کی باطنی ملائمت کو بھی منکشف کرتا ہے۔
کیوں کہ گے کلچر مغربی ممالک میں تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔ شاعر کی نگاہِ دور رس نے اس کلچر کے باطن میں جھانک کر دیکھ لیا ہے اور اس کے تضادات کا اظہار نظم کی خارجی ہیئت میں ریاضیاتی علامت ’+‘ اور قوسین ’()‘ کے ذریعے بھی کیا ہے۔ لزبین لڑکیاں جب گے بی کی ماں بنتی ہیں تو شاعر نے اُنھیں ’ما+ما‘ لکھا ہے اور ’’میزبان ‘‘ کو قوسین میں لکھ کر اس کے کردار کو ایک طرح سے نظر انداز کر دیا ہے۔ جدید اردو نظم میں رموزِ اوقاف کو تو نظم کی ہیئتی تشکیل کا جزبنایا گیا ہے لیکن علی محمد فرشی نے ریاضیاتی علامت کے استعمال سے نظم کی تعمیر و تشکیل میں جدت پیدا کی ہے جو مابعد جدید اردو نظم کی ہیئتی تشکیل کا ایک نیا انداز ہے۔ نظم میںـــــ ’’میزبان ‘‘کے حوالے سے عورت کی ایک پیچیدہ اورگھنائونی نفسیات کی تصویر ابھرتی ہے جو قاری کے اندر کئی طرح کے جذبات و احساسات کو بیدار کرتی ہے۔
نظم کی داخلی ساخت میں جو معنوی اجزاسیال صورت میں موجود ہیں، یہ علی محمد فرشی کی نظمیہ شاعری کے تخلیقی تجربے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ علی محمد فرشی کے تخلیقی تجربے کا زیادہ تر حصہ جدید اور ما بعد جدید تناظر میں خدا ، آدمی، باپ اور ماں کی متھ کے معانی سے تشکیل پاتا ہے۔
’’گے بی‘‘ میں علی محمد فرشی کی نظمیہ شاعری اپنے مواد اور ہیئت دونوں اعتبار سے آگے بڑھی ہے۔ گے بی کے تخلیقی اجزا کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ شاعر نے گے بی کلچر کے تناظر میں انسانی زندگی کا ایک نیا رُخ رونما کیا ہے جو زندگی کے کسی الٰہیاتی ، مذہبی اور اساطیری تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ:ڈاکٹر یٰسین آفاقی، علی محمد فرشی کی نظم’’گے بی‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ،سہ ماہی ’سمبل‘ راولپنڈی،اکتوبر تاا دسمبر۲۰۰۶ ءص۳۰۲ -۳۰۷
حوالہ نظم: مشمولہ ’ غاشیہ‘
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!