The Fountain by Zaif Syed

علی محمد فرشی
جس درخت پر میرا نام لکھاتھا

جس چشمے پر
تو نے اپنے بادل دھوئے
وہ دریا بن گیا

جن جھیلوں پر
تو نے اپنی نیند پھیلائی
ان میں کنول جاگ اٹھے

جس سمندر میں
تو نے سیپیاں پھینکیں
اس میں جل پریاں رقص کرنے لگیں

جس چوبِ خشک پر
تو نے اپنی انگلیاں رکھیں
اس سے سُر پھوٹ پڑے

جن پرندوں کو
تو نے گیت سنایا
وہ اڑنا بھول گئے

جس گڑیا کو
تو نے لوری دی
وہ پری بن گئی

جس شام کے ماتھے پر
تونے اپنے ہونٹ رکھے
اس کی چھاتی سے چاندنی بہنے لگی

جس دن کے ہاتھوں پر
تو نے بوسہ دیا
اس نے نیند میں چلنا سیکھ لیا

جس ساحل پر تونے
اپنے پاؤں رکھے
وہاں شہر آباد ہو گیا

جس پُل پر کھڑے ہو کر
تو نے نیچے دیکھا
وہاں سے بہتا ہوا وقت رک گیا

جس درخت کے سینے پر
تو نے میرا نام لکھاتھا
اُسی کی ٹہنی پر، پھانسی کاپھنداجھول رہاہے

The Fountain

The fountain
in which You washed your hair
Became a river

The lakes over which
You unfurled your sleep
Lotuses sprang up in them

In the ocean
Where you scattered your seashells
Mermaids started dancing

From the dry wood
On which You placed your fingers
Melodies started flowing

The birds
Who heard your song
Forgot to fly

That evening
On which you placed your lips
Moonshine emanated from its bosom

The day
Of which you kissed the hands
Learned to walk in sleep

On the beach
Where you walked
A city arose

The bridge
From which you peeked down
Time stopped running

In the tree’s hands
On which you carved my name
hangs my noose

(Translated by Zafar Syed)