خوش آمدید

آپ یہاں کتابوں کے مضامین اور دیگر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمارے نیوز لیٹر کے ساتھ تازہ ترین رہیں

علی محمد فرشی

علی محمد فرشی ناقدین کی نظر میں

فرشی کے ہاں حقیقت یک رنگی نہیں اسی لیے وہ لفظ کی کئی معنوی سطحیں دریافت کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اُس
کی نظموں میں موجود لفظوں کے شیڈز سے ان کہی بات کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں ۔علینہ ایسی شہکار نظم ہے
جو تخلیق نہیں کی جاتی بلکہ ہو جاتی ہے۔ ضیا جالند ھری
فرشی کی نظم کا طلسم یہ ہے کہ ہر سطر اپنی جگہ نظم کی بنیاد رکھتی ہے اور اگلی سطر سے جڑ کر اس کی
معنوی اکائی کو پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ نئی اردو نظم میں اس طرح کی پیکر تراشی بہت کم ہے اور پھر یہ کہ یہ
محض اکہرے پیکر نہیں بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہو کر پوری نظم کی فکری اساس کو مستحکم کرتے چلے
جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد
فرشی امیجسٹ ہے، لیکن اس کے ہاں امیج سے آگے جانے اور معنی کی تہ در تہ سطحوں پر اس امیج سے آخری
قطرہ تک نچوڑ لینے کی قدرت موجود ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند
فرشی کی طویل نظم بھی پہلے مصرعے سے آخر تک گہرا نامیاتی ربط رکھتی ہے اور اس میں کوئی مصرع غیر
ضروری نہیں ہو تا۔ افتخار عارف
فرشی تکمیل کار شاعر ہے وہ جس صنف کو بھی چھوتا ہے اسے بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ ڈاکٹراحسان اکبر
فرشی کی نظم اس کے نام کے بغیر بھی پہچانی جا سکتی ہے اور یہ اس کی بڑی کامیابی ہے وہ لفظوں کو زندہ کرتا
ہے اور روشنی دکھاتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی
فرشی کی نظم میں ایک لفظ زائد نہیں!یہی نہیں،وہ اوقاف کی علامتوںاور کاغذ کی خالی جگہوں تک کو نظم کے لیے
بروے کار لاتے ہیں۔ ڈاکٹرناصرعباس نیر
فرشی کی ’علینہ ‘کواردو کی معدودے چند باقی رہ جانے والی نظموں میں شمار کیا جائے گا۔جس میں شاعر کی قوت
متخیلہ کوندے کی طرح ایک ہی ساعت میں کئی زمینوں اور کئی زمانوں پر سے لپک کر ابدیت کے کناروں کو
چھولیتی ہے۔ محمد حمید شاہد
فرشی کی طویل نظم ’ مشینہ‘ اردو نظم کے سفر میں ایک مکمل طور پر نیا موڑ ہے جو اردو نظم کو ایک نئے جہان
امکانات کا راستہ سجھا رہی ہے۔اس طرح کے تجربے کی مثال کم از کم میرے مطالعے کی حد تک اس سے پہلے
اردو نظم بلکہ عالمی سطح پر بھی موجود نہیں۔ افتخار بخاری
فرشی نےطویل نظم ’’مشینہ‘‘ میں جدید نظم کی ایسی رسمیات کو متعارف کروایا ہے جو ابھی پوری طرح ہمارے
کسی تنقیدی پیٹرن میں برتی نہیں جا سکیں۔ یامین

سند

کاپی رائٹ © علی محمد فرشی