خوش آمدید

یہاں آپ علی محمد فرشی کے شعری مجموعے،ان کے فن پر لکھے گئے تنقیدی مضامین،نظموں کے تجزیاتی مطالعات اور مختلف بین الاقوامی اور قومی زبانوں میں ان کی نظموں کے تراجم ملاحظہ فرمائیں گے۔

سمبل نیوز لیٹر کے ذریعے اہم ادبی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں۔

علی محمد فرشی ایک نظر میں

علی محمد فرشی ۲۴ ؍جنوری ۱۹۵۶ء کوراولپنڈی کےقُرب ’چونترہ‘ میں پیدا ہوئے۔ اپنےادبی سفر کا آغاز انھوں نے ۱۹۷۳ ء میں افسانے سے کیا لیکن جلد ہی نظم کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔ اُن کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے‘‘ ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا ۔ ناقد ین اور قارئیننے مشمولہ نظموں کے تر و تازہ ڈکشن، موضوعاتی تنوع ، سمبالک اُسلوب اور معنیاتی وسعت کے حوالوں سے اس کتاب کو خصوصی اہمیت دی ۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’فرشی کے ہاں امیج سے آگے جانے اور معنی کی تہ در تہ سطحوں پر اس امیج سے آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی قدرت موجود ہے‘‘۔ڈاکٹر فہیم اعظمی نے اپنے مضمون میں لکھا’’یہ علی محمد فرشی کی پہلی کتاب ہے لیکن فن کے اعتبار سے ان کی شاعری وژن کی شاعری معلوم ہوتی ہے جو کہنہ مشقی کے بعد ہی ممکن ہے‘‘۔’’ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنی کتاب ’’نظم کیسے پڑھیں‘‘ ،مطبوعہ ۲۰۱۸ء، میں اس مجموعے سے ایک نظم ’سانپ نے اندھے لفظ کا لنچ کیا ‘کو مفصل تجزیے کے لیے منتخب کیا۔ گویا ۲۳ برس کے بعد بھی اس کتاب کی اہمیت قائم تھی۔ علی محمد فرشی کی 50 برس پہلے لکھی گئی نظمیں بھی شعری تازگی،فنی رچاؤ اور تاریخی سماجی شعور کے باعث زمانۂ حال کی عکاس دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں(جن کے سرورق ہمراہ لف ہیں) اور تین مجموعے اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ان کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ 68 سال عمر میں بھی وہ نہایت ترو تازہ نظمیں لکھ رہے ہیں۔ ان کی نظموں کا متعدد بین الاقوامی اور قومی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے جن میں انگریزی، جاپانی، عربی، ترکی، فارسی، ہندی، سندھی،ہندکو شامل ہیں۔ان کی متنوع ادبی جہات کو یہاں اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی رائے میں ’’فرشی صاحب کی نظمیں ہمیں غنودگی سے، ایک جھٹکے کے ساتھ جگاتی محسوس ہوتی ہیں اور ہمیں حقیقی دنیا کے ضمن میں پہلے سے زیادہ حساس بناتی ہیں، کیوں کہ ان نظموں کی پیچیدگی خالصتاً استعاراتی یعنی معانی سے لبریز ہے۔فرشی صاحب کی نظم میں ایک لفظ تک زائد نہیں!یہی نہیں،بلکہ وہ اوقاف کی علامتوںاور کاغذ کی خالی جگہوں تک کو نظم کے لیے بروے کار لاتے ہیں۔ ‘‘ناول نگار،مترجم،نقاد اور ادبیاتِ عالم پر گہری نظر رکھنے والے سکالر ظفر سید نے علی محمد فرشی کی نظم’ سائبیریا‘پراپنے تنقیدی تجزیاتی مضمون نے لکھا ہے کہ یہ نظم اردو کا پہلا ڈسٹوپیا ہے۔ ضیا جالندھری نے لکھا ہے،’’ فرشی لفظ کی کئی معنوی سطحیں دریافت کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کی نظموں میں موجود لفظوں کے شیڈز سے اَن کہی بات کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں’’علینہ‘‘ ان نظموں میں سے ہے جو آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔یہ ایسی شہکار نظم ہے جو تخلیق نہیں کی جاتی بلکہ ہو جاتی ہے۔‘‘علی محمد فرشی نے پنجابی لوک صنف ’’ماہیا‘‘ کا اردو میں احیا کیا۔ان کے ۲۴۰ اردو ماہیوں کا مجموعہ ۱۹۹۸ءمیں شائع ہوا۔یوں پاکستان میں سب سے زیادہ بولی والی جانے زبان کی مقبول لوک صنف کو قومی زبان میں رائج کردیا۔ پنجاب کی رنگا رنگ ثقافت کی اردو زبان میں شمولیت کے باعث قومی یکجہتی کو فروغ ملا ۔علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے بی ایس اردو کے نصاب میں ماہیا کو شامل ہونے سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔اب اردو میں ماہیا نگاروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔پاکستان تقریباًنصف صدی سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ جس میں لاکھوں (براہِ راست یا بالواسطہ ) انسانی زندگیاں ضائع ہوئیں۔فرشی کی شاعری میں جس شدت اور کثرت سے اس موضوع کو برتا گیا ہے، اردو شاعری میں اس جیسی مثال مشکل سے ملے گی ’’سفید کاسہ لہو سے لبریز ہو چکا ہے‘‘، ’’بارود گھر‘‘،’’ ہم زاد‘‘،’’خواب جلنے کی بو‘‘بہت اہم نظمیں ہیں۔کرۂ ارض کا ہر ذی شعور فرد براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ایٹمی جنگ کے خوف میں مبتلا ہے،’’کاش ہم زندگی استعمال کر لیتے‘‘، ’’دھوئیں کا درخت‘‘،’’ فیٹ میں‘‘، لٹل بوائے‘‘،’’کینچوے کے بل میں‘‘ ،طویل نظم ’’علینہ‘‘ کا جز (ف)،(م)اور’’تماشائی حیرت زدہ رہ گئے‘‘ ایسی جھنجوڑ دینے والی نظمیں ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کا احساس دلاتی ہیں۔ان کی نظمیں جدید زندگی سے جڑے عصری نفسیاتی مسائل سے نجات کا راستہ دکھاتی ہیں ۔وہ برصغیر کی صوفیانہ روایت کو ذاتی اور معاشرتی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ان کی متعدد نظمیں خالص صوفیانہ موضوعات کی حامل ہیں۔ ’’ میں مکے سے میلی آئی‘‘، ’’ جیون دو دھاری تلوار ‘‘ ،’’گوری آپ مقدر والی‘‘، ’’ستر ماؤں کا پیار‘‘، ’’ساری ماؤں کے نام‘‘،’’ میں باہر کے اندر‘‘، ’’ترنجن‘‘،یک کتابی طویل نظم ’’علینہ‘‘ اسی منزہ  فکر کی شعری تعبیر ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نےاپنے طویل مضمون ’’علی محمد فرشی کے نظم کدے کی کلید‘‘ میں لکھا ہے کہ عورت کے حوالے سے فرشی نے جو استعارے بنائے ہیں اور اپنی بلاغت کے باعث ان کے وسیع تصورِ تانیث کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان کے ہاں عورت نہ صرف جنم دینے والی ایک عظیم ہستی ہے بلکہ ہمارے معاشرتی نظام میں دکھ سہنے والی ایک ایسی قوت بھی، جس نے سماجی مسائل کا تمام کرب اپنے شانوں پر ذمہ داری سے سنبھالا ہوا ہے۔ فرشی کی عورت گھر کی چاردیواری کے اندر بھی فعال اور دیالو ہے‘‘علی محمد فرشی کی نظموں میں تا نیثی شعور ان کی شعری فکریا ت میں اہم عنصر کا درجہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی نے ان کی تانیثی فکر کو موضوع بنانے والی پچاس سے زائد نظموں کو ’’نیلی شال میں لپٹی دھند‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل دی ۔ یہ مجموعہ ۲۰۲۱ء میں شائع ہوا۔ اسی برس فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی کی طالبہ ندا کرن نے’’علی محمد فرشی بہ طور تانیثی شاعر‘‘کےعنوان سے ایم فل کے لیے تحقیقی مقالہ بھی لکھا۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف ان کی نظم’’تم اپنے سمندر بچاؤ‘‘ گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں تخلیق ہوئی۔جو’’زندگی  کا خودکشی کا مقدمہ نہیں ‘‘ ،اشاعت۲۰۰۴ میں شامل ہے۔ اس وقت تک ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا سوال بطور مسئلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ ان کی متعدد نظمیں اس عالمی مسئلے کی ہولناکی کا اظہار کرتی ہیں۔ جن میں’’ خالی صفحہ‘‘،’’آدمی نادمی‘‘، ’’آکاس بیل کا بیلی ‘‘،’’جنت ارضی‘‘ ،’’دو پایہ مشینیں‘‘ اور’’جبلت جان‘‘ ماحولیاتی آلودگی کے مضمرات سے آگاہ کرتی ہیں۔علی محمد فرشی کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں سے یکساں محبت کرتے ہیں۔ ان کی متعدد نظموں میں انسانی تہذیب کو درہیش خطرات کا شدید احساس موجود ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ان خطرات سے بچنے کی راہ بھی دکھاتے ہیں،’’غاشیہ‘‘، ’’ مشینہ‘‘،’’گے بی‘‘،’’کھائی‘‘،’’پریس نوٹ‘‘،’’مردہ زندگی کا الہام‘‘، جڑواں سوالات کی موت‘‘، ’’تماشائی حیرت زدہ رہ گئے‘‘،’’ہوا کا بیج‘‘، ’’چوپائیگی‘‘، ’’قارعہ‘‘، ’’پیچھا کرتی لاشیں‘‘، ’’ بے اساس‘‘،’’وقت‘‘، ’’عورت گیان‘‘اور ’’پینو راما اور پرندہ‘‘ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ محبت،امن، بھائی چارہ اور انسان دوستی ایسے موضوعات ہیں جو دنیا کی ہر زبان میں بڑی شاعری کا لازمہ رہے ہیں۔ علی محمد فرشی کی نظموں  کا خمیر بھی انھی عناصر سے اٹھا ہے۔ البتہ صوفیانہ طرزِ احساس، سچی اور بے لوث دردمندی،شعری تجربے کی صداقت، تخلیقی اظہاراور منفرد جمالیاتی رچاؤ کے ساتھ نویلے اسلوب  ان موضوعات کی پیش کش ان کی شاعری کو اردو میں خاص شناخت عطا کرتی ہے۔علی محمد فرشی جدید نظم کے اہم نقاد بھی ہیں۔انھوں نے راشد،میراجی،مجید امجد،ضیا جالندھری، وزیرآغا، ساقی فاروقی، آفتاب اقبال شمیم، ستیہ پال آنند، اصغر ندیم سید،جاوید انور اور یامین کی نظموں پر تجزیاتی تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ انھوں نےاکادمی ادبیات پاکستان کے مشاہیر پر کتابوں کے سلسلے میں’’ضیا جالندھری:شخصیت اورفن‘‘ کے عنوان سے ضیا صاحب پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔علی محمد فرشی کی ایک نمایاں جہت ادبی صحافت بھی ہے جسے وہ ادبی عبادت خیال کرتے ہیں۔انھوں نے ادبی صحافت کا آغاز۱۹۸۴یں روزنامہ’’جنگ راولپنڈی‘‘ میں عروض پر ہفتہ وار کالم لکھنے سے کیا۔ وہ معروف ادبی رسالے سہ ماہی ’’سمبل‘‘ کی ادارت بھی کر رہے ہیں جس کے اب تک بیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اس رسالے کو اردو دنیا میں اعلیٰ معیار کے ادب کا ’سمبل‘ خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں دنیا بھر کے نامور ادیبوں، شاعروں، مترجمین اور نقادین کی تحریریں شامل ہوتی ہیں۔

کاپی رائٹ © علی محمد فرشی